• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

عمران خان کی جگہ ہوتا تو سندھ، پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کو برطرف کردیتا، فواد چوہدری

شائع February 19, 2020 اپ ڈیٹ February 20, 2020
اپوزیشن اس وقت تتر بتر ہے اور بکھری ہوئی ہے، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی — فائل فوٹو / اے ایف پی
اپوزیشن اس وقت تتر بتر ہے اور بکھری ہوئی ہے، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی — فائل فوٹو / اے ایف پی

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ گندم بحران کی ذمہ داری سندھ اور پنجاب کی حکومتیں ہیں اور اگر میں وزیر اعظم عمران خان کی جگہ ہوتا تو دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو برطرف کر دیتا۔

نجی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'کیپیٹل ٹاک' میں ملک میں گندم اور چینی کے بحران سے متعلق فواد چوہدری نے کہا کہ 'میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار پر حیران ہوں جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر پر اتنا بڑا داغ لگوا لیا ہے، فوڈ کنٹرولر کا کام کرنا ان دونوں کی ذمہ داری نہیں تھی اور نہ ہی اس پورے بحران میں وفاق کا کوئی قصور یا کردار تھا، نہ جانے دونوں نے کن مصلحتوں کے تحت اس معاملے میں صوبوں کی انتظامی غفلت کا نہیں بتایا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو نقصان پہنچا۔'

انہوں نے کہا کہ 'گندم کا پورا بحران انتظامی غفلت کی وجہ سے سامنے آیا چاہے پنجاب ہو یا سندھ، سو فیصد قصور ان صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور انتظامیہ کا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کھلے دل کے شخص ہیں، اس لیے انہوں نے گندم بحران کا اعتراف کیا، اگر گندم کی ذمہ داری بھی وزیر اعظم نے لینی ہے تو باقی لوگ کیا صرف پروٹوکول لینے کے لیے بیٹھے ہیں؟'

مزید پڑھیں: گندم کی قلت کی پیشگی اطلاعات کے باوجود حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے

فواد چوہدری نے کہا کہ 'بحران کی مکمل ذمہ داری سندھ اور پنجاب کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور اگر میں وزیر اعظم کی جگہ ہوتا تو دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو برطرف کر دیتا، دونوں صوبوں کے چیف سیکریٹریز کیا سوئے ہوئے ہیں، نہ ان سے مہنگائی کنٹرول ہورہی ہے نہ ان سے گندم کا بحران حل ہو رہا ہے، ان کی ہر نالائقی کا ملبہ وفاقی حکومت پر گرتا ہے۔'

عمران خان کی جانب سے ان 'نالائق لوگوں' کا تحفظ کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'سیاست اور گورننس علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں اور وزیر اعظم کے ایسا کرنے کے پیچھے یقیناً سیاسی وجوہات ہوں گی۔'

خیال رہے کہ ملک میں آٹے اور چینی کے بحران کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے اور مختلف صوبوں میں کہیں آٹا دستیاب نہیں اور کہیں اس کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر ہے۔

مذکورہ بحران کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے بغیر 3 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی۔

مارچ کے ماہ میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاجی تحریک چلانے کے اعلان کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ 'دنیا بھر میں سیاسی تبدیلی تب آتی ہے جب برسر اقتدار کا کوئی نعم البدل ہو اور پھر ادارے اس نعم البدل کے ساتھ مل جائیں، لیکن پاکستان میں یہ دونوں صورتحال نہیں ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'اپوزیشن اس وقت تتر بتر ہے اور بکھری ہوئی ہے، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کون کرے وہ ابھی یہی فیصلہ کر پائے، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کی حیثیت علاقائی ہے، دوسری طرف حکومت اور فوج میں مکمل ہم آہنگی ہے۔'

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی سوشل میڈیا قواعد پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ہدایت

جرنلسٹس پروٹیکشن بل اور سوشل میڈیا ریگولیشنز سے متعلق فواد چوہدری نے کہا کہ 'سوشل میڈیا ریگولیشنز کا معاملہ وفاقی کابینہ میں زیر غور آیا تھا اور یہ معاملہ دو سال سے جاری تھا، یہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کے سیکشن 22 کے تحت رولز بنائے گئے ہیں جو ذیلی قانون سازی ہوتی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'سوشل میڈیا کمپنیوں کا پاکستان میں دفاتر قائم کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے اربوں روپے کے اشتہار چلائے جارہے ہیں اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اتنی بڑی رقم ٹیکس نیٹ سے باہر رہے، جبکہ اس تاثر پر بحث ہونی چاہیے کہ حکومت ان کمپنیوں پر دباؤ ڈال کر اپنے خلاف مواد روکے گی۔'

خیال رہے کہ 28 جنوری کو وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دی تھی جس کا اعلان 12 فروری کو کیا گیا تھا۔

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 50 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

علاوہ ازیں ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024