• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

گومل یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس کا تشدد 'شرمناک عمل' قرار

شائع February 19, 2020 اپ ڈیٹ February 20, 2020
—فوٹو: بشکریہ فیس بک
—فوٹو: بشکریہ فیس بک

رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما محسن داوڑ نے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کی گومل یونیورسٹی میں انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر پولیس کے تشدد اور ان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

محسن داوڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں یونیورسٹی میں پرامن مظاہرین کے خلاف پولیس تشدد اور طلبہ تنظیموں سے وابستہ کارکنوں کی گرفتاری کو قابل مذمت اور شرمناک حرکت قرار دیا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ: پولیس سے جھڑپ میں درجنوں طلبہ گرفتار

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جنہیں گرفتار کیا گیا انہیں فوری رہا کیا جائے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل نے بھی ٹوئٹ میں کہا کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گومل یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج اور موقف کی حمایت کی ہے۔

پارٹی کے میڈیا سیل نے کہا کہ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے بجائے پولیس کا تشدد اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں سمیت یونیورسٹی کو بند کرنے کا اقدام 'بلاجواز' تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کے جائز مطالبات فوراً تسلیم اور یونیورسٹی میں تدریسی عمل بلا تاخیر بحال کیا جائے۔

دوسری جانب مقامی پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی درخواست پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 147 (ہنگامہ آرائی کی سزا)، 149 اور 341 کے تحت 9 طلبہ کی گرفتاری کے بعد احتجاج نے پرتشدد موڑ اختیار کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: لائبریری میں طلبہ پر پولیس کے بدترین تشدد کی ویڈیو وائرل

ذرائع نے بتایا کہ طلبہ کے خلاف پہلی ایف آئی آر 14 فروری کو درج ہوئی جبکہ دوسری ایف آئی آر منگل کی رات درج کی گئی۔

طلبہ رہنما پیر قیصر نے ڈان نیوز کو بتایا کہ پولیس نے منگل کے روز طاقت کا استعمال کیا اور طلبہ پر لاٹھی چارج کیا۔

علاوہ ازیں انہوں نے دعویٰ کیا کہ احتجاج پرامن تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی احتجاج روکنے کے لیے پولیس کو استعمال کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے گومل یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسٹرار ظاہر شاہ نے کہا کہ طلبہ کے 16 مطالبات میں سے 14 مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود وہ شہر کی اہم سڑکوں پر مستقل احتجاج کر رہے ہیں جس کے باعث امن و امان کی صورتحال کا خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج

انہوں نے مزید کہا کہ تقریبا 25 طلبہ پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'طلبہ نے مطالبہ کیا تھا کہ یونیورسٹی کی فیس 36 ہزار 500 روپے سے کم کرکے 30 ہزار روپے کردی جائے جو ہم نے قبول کرلی لیکن وہ ابھی بھی احتجاج کررہے ہیں'۔

اس ضمن میں پیر قیصر نے کہا کہ یونیورسٹی نے تاحال اس بارے میں کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا۔

ڈپٹی رجسٹرار ظاہر شاہ نے دعوی کیا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ متعدد مرتبہ اپنے امتحانات میں ناکام رہے اور اب وہ 'گولڈن ٹریٹمنٹ' کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ یونیورسٹی سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ان کے لیے خصوصی ضمنی امتحانات کا انتظام کرے جو قواعد کے منافی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: احتجاج کرنے والے اساتذہ کو ایک سال قید،5 لاکھ جرمانہ تجویز

معاملے پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) وحید محمود سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024