‘حیض والی خاتون کا پکایا کھانا کھانے والا شوہر اگلے جنم میں کتا بن کر پیدا ہوتا ہے‘
تین دن قبل ہی بھارتی ریاست گجرات کے ضلع کچھ کے ایک گرلز کالج میں خواتین اساتذہ نے طالبات کی ماہواری چیک کرنے کے لیے ان کے زیر جامہ اتارے تھے۔
مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد پولیس نے اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کالج کے اساتذہ اور ملازمین کو گرفتار کرنے کی سفارش کی تھی۔
پولیس کی تفتیشی کمیٹی کی سفارش کے بعد 18 فروری کو پولیس نے کالج کی پرنسپل اور ایک استاد سمیت 4 خواتین ملازمین کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تھا اور عدالت نے انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
گرفتار کی گئی کالج ملازمین پر الزام ہے کہ انہوں نے بھوج شہر کے شری سہاجانند گرلز انسٹی ٹیوٹ (ایس ایس جی آئی) کی طالبات کی ماہواری جانچنے کے لیے انہیں اپنا لباس اتارنے پر مجبور کیا تھا۔
مذکورہ کالج میں ریاست کے دیہی علاقوں کی طالبات پڑھتی ہیں اور اس کالج میں لڑکیوں کی ماہواری کے حوالے سے سخت قوانین نافذ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: ماہواری کی جانچ کیلئے طالبات کو زیر جامہ اتارنے پر مجبور کردیا گیا
مذکورہ کالج کے قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی بھی لڑکی ماہواری کے ایام میں کلاس میں نہیں آئے گی اور اگر وہ کلاس میں آ بھی جائے تو وہ عام طالبات کے ساتھ نہیں بیٹھے گی بلکہ وہ سب سے الگ اور کلاس کے آخر میں بیٹھے گی۔
اسی طرح ضوابط کے مطابق طالبات ماہواری میں اپنی ساتھی طالبہ کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتیں۔
کالج قوانین کے مطابق کھانے کے اوقات میں بھی ماہواری میں طالبات سب سے الگ ہو کر کھائیں گی اور اپنے کھانے کے برتن خود دھوئیں گی۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ کالج کے طالبات کے ہاسٹل میں ایک رجسٹر مختص ہے جس میں طالبات کی ماہواری سے متعلق تفصیلات درج کی جاتی ہیں تاکہ کالج انتظامیہ طالبات کی شناخت کر سکے۔
اہم گزشتہ 2 ماہ سے کسی بھی طالبہ کی جانب سے اپنا نام رجسٹر میں درج نہ کرنے پر اساتذہ نے کالج پرنسپل کو طالبات کی شکایت کی جس کے بعد انتظامیہ نے تمام طالبات کی ماہواری جانچنے کا حکم دیا۔
اعلیٰ انتطامیہ کے حکم کے بعد 2 روز قبل اساتذہ نے کالج کی 68 نوجوان طالبات کا لباس اتارکر ان کی ماہواری کی جانچ کی تھی اور واقعے کی رپورٹس میڈیا مین آنے کے بعد پولیس نے کالج کی ملازمین کو گرفتار کرلیا تھا۔
بھارت: ماہواری کی جانچ کیلئے طالبات کے زیر جامہ اتارنے کے الزام میں اساتذہ گرفتار
تاہم اب اسی کالج کو چلانے والی مذہبی تنظیم سوامی نرائن کے ایک اعلیٰ مذببی رہنما کا بیان سامنے آیا ہے جو بظاہر پرانا بیان لگتا ہے تاہم ان کا بیان اب بھارتی میڈیا میں وائرل ہوگیا۔
بھارت کے بڑے میڈیا گروپ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ذیلی اخبار ’احمد آباد مرر‘ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بھوج کے شری سہاجانند گرلز انسٹی ٹیوٹ (ایس ایس جی آئی) کو چلانے والی مذہبی تنظیم سوامی نرائن کے اہم مذہبی پیشوا سوامی کرشنا سوا روپ داس نے ایک مذہبی تقریب میں خطاب کے دوران کہا کہ ’اگر کوئی بھی شوہر حیض والی بیوی کے ہاتھ سے بنا کھانا کھائے گا تو وہ اگلے جنم میں کتا بن کر پیدا ہوگا'۔
اسی رپورٹ کے حوالے سے ’انڈین ایکسپریس‘ نے بتایا کہ مذہبی پیشوا سوامی کرشنا سوا روپ داس کے مذکورہ بیان کی خبر شائع ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے دیے گئے متنازع اور خواتین کے لیے انتہائی تضحیک آمیز بیان کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سوامی کرشنا سوا روپ نے متنازع بیان گجراتی زبان میں دیا اور وہ بظاہر ایک مذہبی مجمع سے خطاب کر رہے تھے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ سوامی کرشنا سوا روپ کا مذکورہ متنازع بیان کچھ عرصہ قبل دیا گیا تھا تاہم ان کے بیان کی ویڈیو بھوج کالج کی طالبات کی ماہواری جانچنے کے بعد وائرل ہوئی کیوں کہ مذکورہ کالج ان ہی کی سرپرستی میں چلتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذہبی مجمع سے خطاب کے دوران سوامی کرشنا سوا روپ نے گجراتی میں خطاب کرتے ہوئے مرد حضرات کو مشورہ دیا کہ جتنا جلد ہو سکے وہ اپنے لیے کھانا بنانا سیکھ جائیں کیوں کہ اگر وہ یوں ہی ماہواری والی خاتون کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتے رہیں گے تو اگلے جنم میں وہ جانور بن کر پیدا ہوں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سوامی کرشنا سوا روپ کا کہنا تھا کہ حیض والی خاتون کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا کھانے والا شوہر جہاں اگلے جنم میں ’کتا‘ بن کر پیدا ہوگا، وہیں ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے والے دوسرے مرد ’بیل’ بن کر پیدا ہوں گے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں لوگوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ ان کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تو نہ کریں، انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں مگر وہ انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہندو مذہب کی مقدس کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں اور وہ ان کتابوں کا پیغام ان تک پہنچا رہے ہیں۔
ہندو مذہبی رہنما کے خواتین سے متعلق تضحیک آمیز بیان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے جب کہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کی مذہبی تنظیم کی سرپرستی میں چلنے والے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو حکومت اپنی تحویل میں لے۔