کراچی میں 'زہریلی گیس' کے اخراج سے اموات کی تعداد 14 ہوگئی
کراچی کے علاقے کیماڑی میں مبینہ طور پر زہریلی گیس کے اخراج کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 14 ہوگئی جبکہ متاثرہ افراد کی تعداد 300 کے قریب پہنچ چکی ہے۔
محکمہ صحت سندھ نے 14 اموات کی تصدیق کی اور بتایا کہ 9 افراد ضیاالدین ہسپتال، 2 سول ہسپتال، 2 کتیانہ میمن ہسپتال اور ایک برہانی ہسپتال میں انتقال کرگئے۔
علاوہ ازیں درجنوں مظاہرین اور علاقہ مکینوں نے کیماڑی کی جیکسن مارکیٹ میں احتجاج کیا اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان اموات پر جواب دیں جو پراسرار گیس کے باعث ہوئیں۔
دوسری جانب جامعہ کراچی کے ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بیالوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) نے حاصل کردہ نمونوں کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایک وجہ سویابین ڈسٹ ہے اور اس کے لیے اینٹی الرجک ادویات استعمال کرنی چاہیئں۔
قبل ازیں اس سلسلے میں ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ضیاالدین ہسپتال کے ترجمان عامر شہزاد نے بتایا کہ گزشتہ 2 روز کے دوران ضیاالدین کیماڑی کیمپس میں 9 افراد کی اموات ہوئیں جبکہ پولیس نے کتیانہ میمن ہسپتال میں 2 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔
عامر شہزاد نے بتایا کہ ہسپتال میں اب تک 250 افراد کو لایا جاچکا ہے جس میں زیادہ تر افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد واپس بھیج دیا گیا تاہم 5 افراد انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں زیر علاج ہیں جن کی حالت بہتر ہورہی ہے۔
دوسری جانب جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیر کو جناح ہسپتال میں 27 مریض لائے گئے اور ان سب کا تعلق کیماڑی کے علاقے سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں گیس لیکیج کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات جاری
انہوں نے بتایا کہ 26 مریضوں کو ابتدائی طبی امداد دینے کے 3 سے 4 گھنٹے کے بعد ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی تاہم ایک شخص آئی سی یو میں زیر علاج ہے جس کی حالت تشویشناک ہے۔
اسی حوالے سے پولیس سرجن ڈاکٹر قرار احمد عباسی نے کہا کہ 2 خواتین کو ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال لایا گیا تھا جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔
شبہ ہے گیس کا اخراج تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ سے ہوا، ڈی جی سیپا
اس ضمن میں سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے) کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل نے بتایا کہ ہمیں شبہ ہے کہ گیس کا اخراج تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ سے ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کالونی سے ملحقہ آئل اسٹوریج یارڈز ہیں جہاں پیٹرول سے بھرے جہاز ان لوڈ اور تیل اسٹور کیا جاتا ہے اور ٹینکس کی صفائی بھی یہیں کی جاتی ہے۔
ڈی جی سیپا نے بتایا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں پیٹرولیم کوک کا جہاز بھی موجود ہے جس کا کنٹینر کھولنے سے کافی مضر صحت گیسز خارج ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں:کراچی: 'زہریلی گیس' سے ہلاکتوں کی تعداد 7 ہوگئی،وزیراعلیٰ کا علاقہ خالی کرانے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ کے پی ٹی کو ماحولیاتی خطرے کا باعث بننے والے جہازوں کی باقاعدہ اجازت لینی چاہیے، انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی کا کمپلائنس لیول کافی خراب ہے۔
نعیم مغل نے خبردار کیا کہ جس کی بھی غلفت ہوئی اس کے خلاف ماحولیاتی قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کل متاثرہ علاقے کا مکمل دورہ کیا اور کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) آپریشنز کا بھی مشاہدہ کیا تھا۔
ڈی جی سیپا کے مطابق مرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ریلوے کالونی سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیماڑی اور متاثرہ علاقے کی فضا کے پی ٹی آپریشنز کے باعث آلودہ رہتی ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں کاربن مونوآکسائیڈ اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کی مقدار بھی معمول سے کہیں زیادہ پائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کیماڑی اور اطراف کے علاقوں کے رہائشیوں کی قوت مدافعت بھی کم ہے اور یہاں کے رہائشی دمہ اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
واقعے کی ممکنہ وجہ تاحال غیر واضح
اس ضمن میں کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے ڈان کو بتایا کہ ’ہمیں اس واقعے کی ممکنہ وجہ تلاش کرنے کے حوالے سے اب بھی لاعلم ہیں‘۔
دوسری جانب گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کی اور رہائشیوں کے انخلا کے احکامات دیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: پراسرار گیس کے باعث 4 افراد جاں بحق
اجلاس میں کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے بتایا تھا کہ ایک جہاز سویا بین یا اس قسم کی کوئی آف لوڈ کررہا تھا جو ممکنہ طور پر واقعے کی وجہ ہوسکتی ہے اور جب ’آف لوڈنگ روک دی گئی تو بو بھی ختم ہوگئی‘۔
جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے اس مخصوص کنٹینر کو چیک کرنے کی ہدایت کی، جس پر کمشنر کراچی نے بتایا کہ جہاز سے آف لوڈنگ روک دی گئی ہے۔
اسی سلسلے میں ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے وزیر بحری امور علی حیدر زیدی نے کہا کہ واقعے کی وجہ سویابین کے جہاز کو قرار دینے کی رپورٹ ’بالکل بکواس‘ ہے کیوں کہ جہاز اور عملہ بالکل ٹھیک ہیں۔
علی زیدی کا مزید کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بو صرف رات کو محسوس ہوتی ہے، انہوں نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ پورٹ پر کچھ نہیں ہوا۔
حتمی رپورٹس آنے تک وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، ناصر شاہ
اس سلسلے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت عوام کی سپورٹ کررہی ہے اور اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ نے بھی ہسپتالوں کا دورہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پورٹ کی سرگرمیاں بہت زیادہ ہیں اور پورٹ کو شہری علاقوں تک پھیل جانے سے روکنے اور کیمیکل فیکٹریوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔
ناصر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت تمام ادارے کام کررہے ہیں۔
گیس کے اخراج سے متعلق ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ گیس کے اخراج کے بارے میں مختلف رپورٹس زیر گردش ہیں لیکن کچھ وقت دیں اور جب حتمی نتائج سامنے آجائیں گے تو بہتر طور پر آگاہ کیا جائے گا۔
اس ضمن میں کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ واقعہ کراچی کے صرف ایک علاقے تک محدود ہے اس لیے اس قسم کی رپورٹس نہ پھیلائی جائیں کہ جس سے شہر بھر میں خوف و ہراس پھیل جائے۔
افتخار شلوانی کا مزید کہنا تھا کہ مریضوں اور مرنے والوں کے نمونے لیے گئے ہیں جن کی حتمی رپورٹس آنے تک موت کی وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔