بڑھاپا اچھا چاہتے ہیں تو اپنی تاریخِ پیدائش ٹھیک کرلیں
زیادہ تر لوگ اپنی تاریخِ پیدائش کو صرف اپنا حقیقی برج یا ستارہ جاننے کے لیے ہی اہمیت دیتے ہیں، اور اس کے علاوہ وہ اس تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی سالگرہ کی تاریخ حقیقی ہو یا من مرضی کی، دوست احباب اور عزیز و اقارب انہیں اسی تاریخ پر ہر سال مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں۔ چند ترقی پسند ادارے اپنے ملازمین کو سالگرہ کا دن منانے کے لیے ایک دن کی چھٹی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسے اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے معلوم ہوسکے کہ کتنے لوگوں کی تاریخ پیدائش حقیقی ہے اور کتنے لوگوں کی جھوٹی ہے۔
والدین کی جانب سے اپنے بچوں کی عمر گھٹانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں۔ لڑکوں کے والدین ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی ملازمت کی مدت بڑھ جائے جبکہ لڑکیوں کے والدین کی جانب سے یہ کوشش اس لیے کی جاتی ہے تاکہ ان کی شادی کے لیے ’بہترین عمر‘ کا دورانیہ بڑھ جائے۔
ہمارے شناختی کارڈ میں تاریخِ پیدائش کے اندراج کا سلسلہ 1970ء کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا۔ اس سے قبل کسی فرد کی درست تاریخِ پیدائش کا اندازہ صرف اس کی تعلیمی اسناد سے ہی لگایا جاتا تھا۔ تاہم اسناد پر درج تاریخِ پیدائش مصدقہ ہونے کی تصدیق نہیں ہوتی تھی۔
آج بھی میونسپل کمیٹیاں اس وقت ہی بچوں کی تاریخِ پیدائش اپنے پاس درج کرتی ہیں جب ان کے پاس کوئی شخص انہیں بچے کی پیدائش کی اطلاع دیتا ہے۔ میونسپل کمیٹیوں کے ریکارڈ کی بنیاد ہی پر نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) ان تواریخِ پیدائش کو باضابطہ شکل دیتی ہے۔
ایسا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے جس میں صنعتی اور تجارتی اداروں میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی حدِ عمر تجویز کی گئی ہو۔ ہر کمپنی اپنی مرضی سے قوانین مرتب دیتی ہے جس میں ملازم کی ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد مقرر کی گئی ہوتی ہے۔
زیادہ تر کمپنیاں ریٹائرمنٹ کے لیے مردوں کی 60 برس جبکہ خواتین کے لیے اس سے بھی کم عمر کی حد مقرر کرتی ہیں۔ تاہم اس صنفی امتیاز کا دھیرے دھیرے خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 1976ء کے تحت مردوں کے لیے پینشن کی اہلیت کی عمر 60 برس جبکہ خواتین کے لیے 55 برس مقرر کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ملنے والی پینشن سے صرف وہی ملازمین مستفید ہوسکتے ہیں جن کے متعلقہ اداروں یا مالکان نے ان کی طرف سے کم از کم 15 برس کے عرصے تک ای او بی آئی کو ہر ماہ ایک مخصوص رقم جمع کروائی ہوتی ہے۔
جب کوئی ادارہ کسی شخص کو ملازمت کی پیش کش کرتا ہے تب انہیں ایسے متعدد دستاویزات پُر کرنے ہوتے ہیں جن میں تاریخِ پیدائش پوچھی گئی ہوتی ہے۔ نئے ملازمین کو اپنی تاریخِ پیدائش ملازمت کی درخواست، پرووِیڈنٹ فنڈ کی ممبرشپ، سوشل سیکیورٹی اور پینشن وغیرہ جیسی اسیکموں کے فارمز پر درج کرنا ہوتا ہے۔ تاہم ان فارمز کو پُر کرتے وقت اکثر ملازمین کو اس بات کا خیال ہی نہیں ہوتا کہ کئی دہائیوں بعد ان کی ریٹائرمنٹ سے متعلق فیصلہ بھی انہی فارمز میں درج معلومات کی بنیاد پر ہوگا۔
پھر جب ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے تو چند ملازمین تنخواہ کے بغیر اپنے گزر بسر کا سوچ سوچ کر خوف کھانے لگتے ہیں۔ اس مرحلے پر آکر وہ اکثر دستاویزات میں درج تاریخِ پیدائش میں ہیرا پھیری کرتے ہوئے مقررہ ریٹائرمنٹ کی حدِ عمر سے مزید چند برسوں تک اپنی ملازمت جاری رکھنے کی اسکیمیں تیار کرنے لگتے ہیں اور اپنے اداروں یا مالکان کو اس بات کے لیے راضی کرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ کئی ملازمین تو اپنی عمر چند برس کم دکھانے کے لیے جعلی اسناد بنوانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
میں کئی برسوں تک ایک ادارے کے انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کے شعبے میں کام کرچکا ہوں۔ اس شعبے میں ملازمت کے دوران میرے سامنے ایسے کئی ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچنے والے ملازمین کے معاملات آئے جن میں انہوں نے اپنی تاریخِ پیدائش میں تبدیلی کی بھرپور کوششیں کی تھیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ ایک ڈرائیور کا تھا، انہیں جب ریٹائرمنٹ نوٹس بھیجا گیا تو وہ دیہی سندھ کے ایک پرائمری اسکول کے ہیڈماسٹر کے جاری کردہ سرٹیفکٹ کی بنیاد پر سول کورٹ سے اپنی عمر میں 3 برس کی کمی کا آرڈر لے آیا۔ عدالت نے متعلقہ ادارے کو مقدمے میں فریق بنائے بغیر ہی تفصیلی فیصلہ سنا دیا تھا حالانکہ یہ فیصلہ متعلقہ ادارے پر منفی طور پر اثرانداز ہوا تھا۔ عدالت نے صرف نادرا کو سمن جاری کیا جس میں درخواست گزار کے شناختی کارڈ میں تاریخِ پیدائش تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ایسے معاملات سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی جانب سے 28 فروری 2014ء کو سنایا گیا فیصلہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عدالتی حکم کے مطابق درخواست گزار ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچنے پر اپنی تاریخِ پیدائش کو تبدیل نہیں کرواسکتا، درخواست گزار کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 5 جون 2013ء تھی۔
درخواست گزار نے 28 اکتوبر 1985ء کو آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ میں ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے کمپنی کو ایسی متعدد دستاویزات جمع کروائی تھیں جن میں ان کی تاریخِ پیدائش 6 جون 1953ء درج تھی، لیکن اب وہ شخص اپنی تاریخِ پیدائش تبدیل کروا کر 11 جون 1956ء لکھوانا چاہتا تھا۔
درخواست گزار نے ثبوت کے طور پر لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے (تعلیم کے) ایگزیکیٹو ضلعی افسر اور ایک سرجن کے جاری کردہ برتھ سرٹیفکیٹس پیش کیے۔ عدالت نے کہا کہ اگر سرجن نے ریڈیولوجیکل رپورٹس کی بنیاد پر اپنی رائے نہیں دی ہے تو ان کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔
کسی بھی ادارے میں ملازمت اختیار کرتے وقت ملازمین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے ادارے کو جو تاریخِ پیدائش بتارہے ہیں اس تاریخ کا اندراج ان کی دستاویزات پر ہو کیونکہ بعض اوقات ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنیاں ان کی تاریخِ پیدائش تبدیل کردیتی ہیں۔ آگے چل کر تاریخِ پیدائش کی تبدیلی ان کی
زندگی پر خاصا اثر انداز ہوسکتی ہے۔
یہ مضمون 18 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں