'آزادی کا جشن' منانے کے لیے سعودی خواتین نے سگریٹ نوشی شروع کردی
گزشتہ چند سال سے خواتین کو خودمختاری دینے والے ملک سعودی عرب سے آنے والی تازہ رپورٹس کے مطابق وہاں خواتین نے کئی دہائیوں کے بعد خود کو ملنے والی آزادی کا جشن منانے کے لیے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی شروع کردی۔
سعودی عرب کی حکومت نے وژن 2030 کے تحت 2015 کے بعد خواتین کے لیے اصلاحات متعارف کراتے ہوئے انہیں جہاں ڈرائیونگ کی اجازت دی، وہیں انہیں گھر کے کسی مرد سربراہ کی اجازت کے بغیر بھی بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دی گئی۔
وژن 2030 کی اصلاحات کے تحت ہی خواتین کو سیاست کرنے، ووٹ دینے، غیر محرم مرد کے ساتھ نوکری کرنے، شوبز و فیشن کی دنیا میں آنے، کھیل کھیلنے اور اپنی مرضی کا مگر اسلامی لباس پہننے کی اجازت بھی دی گئی اور ان ہی اصلاحات کی وجہ سے سعودی عرب کی دنیا بھر میں تعریف بھی ہوئی۔
خواتین کو ملنے والی آزادیوں اور خود مختیاریوں کے تحت ہی کچھ دن قبل سعودی عرب سے یہ خبریں آئی تھیں کہ وہاں پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خفیہ طور پر محبتیں پروان چڑھا رہے ہیں اور اب وہاں نوجوان شادی سے قبل تعلقات استوار کرنے کو غلط نہیں سمجھتے۔
اور اب سعودی عرب سے خبریں سامنے آئی ہیں کہ وہاں پر خواتین کی بہت بڑی تعداد نے سرعام عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی بھی شروع کردی ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عوامی مقامات پر مرد حضرات کے ہجوم کے سامنے سگریٹ نوشی کرنے والی نوجوان لڑکیوں میں دارالحکومت ریاض کی 27 سالہ ریما بھی ہیں، جو ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتی ہیں۔
ریما نے سگریٹ نوشی کرنے کے حوالے سے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’وہ گزشتہ دو سال سے سگریٹ نوشی کر رہی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ سعودی عرب کی خواتین اپنی آزادی کا جشن منانے کے لیے سگریٹ نوشی کرتی ہیں'۔
ریما الیکٹرانک سگریٹ استعمال کرتی ہیں اور وہ اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ ان کی طرح اب دیگر لڑکیاں اور خواتین بھی عوامی مقامات پر اپنی آزادی کا جشن منانے کے لیے سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔
اگرچہ ریما سعودی عرب کی خواتین کی سگریٹ نوشی کو آزادی کے جشن سے تشبیح دیتی ہیں تاہم ساتھ ہی وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتی ہیں کہ ابھی فوری طور پر سعودی سماج ایسی خواتین کو قبول نہیں کرے گا اور ان کے اہل خانہ بھی اس عمل کو غلط سمجھتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ سگریٹ نوشی کے کئی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کرنے والی لڑکیوں میں 26 سالہ نجیلا بھی ہیں جو خواتین کے اس عمل کو حقیقی خودمختاری قرار دیتی ہیں۔
نجیلا کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا سماج یہ کیسے برداشت کرے گا کہ ایک ہوٹل میں جہاں مرد حضرات کا ہجوم ہو اور درجن سے زائد مرد بیٹھے ہوں، وہاں ایک خاتون سگریٹ جلائے؟
انہوں نے کہا کہ خواتین کی حقیقی خودمختاری ہی اسی میں ہے کہ انہیں سگریٹ نوشی سمیت دیگر کام کرنے کی مکمل اجازت ہو۔
عوامی مقامات پر ای سگریٹ یا شیشہ استعمال کرنے والی سعودی خواتین میں 36 سالہ ہیبا بھی ہیں جو زیادہ تر عوامی مقامات پر شیشہ استعمال کرتی ہیں۔
ہیبا نے سعودی عرب کے گزشتہ چند سال کی بدلتی زندگی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ سال قبل تک یہ سوچنا بھی غلط تھا کہ خواتین عوامی مقامات پر یوں سگریٹ نوشی کریں گی یا وہ شیشہ استعمال کریں گی لیکن آج یہ سب کچھ خواتین کر رہی ہیں۔
انہوں نے خواتین کو دی جانے والی آزادیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اب سعودی عرب کی خواتین کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ وہ حجاب یا عبایا پہنیں یا نہیں لیکن اب بھی خواتین حجاب یا عبایا میں سگریٹ نوشی کرنے سمیت دیگر کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
خواتین کی جانب سے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کے آغاز سے قبل ہی سعودی حکومت کی جانب سے 2015 میں جاری کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی 65 فیصد ہائی اسکول و کالجز کی لڑکیاں کسی نہ کسی طرح کی سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق مذکورہ سروے سعودی عرب کی سب سے معتبر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی نے کیا تھا۔