• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

الیکشن کمیشن کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ عوام اس پر اعتماد کیوں نہیں کرتے!

شائع February 17, 2020
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان طویل اور مشکل مشاورتی مرحلے کے بعد الیکشن کمیش آف پاکستان (ای سی پی) کے چیف سمیت 3 خالی جگہیں پُر ہوچکی ہیں اور اسی کے ساتھ 5 رکنی کمیشن مکمل ہوچکا۔

لیکن اس کے باوجود اب بھی پورے ایک سال کے لیے 2 صوبائی عہدے خالی ہیں کیونکہ ممبران کے ناموں پر تاحال وزیرِاعظم اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو نئے اور آئندہ برس تعینات ہونے والے مزید 2 ممبران 2023ء کے عام انتخابات کا انعقاد کروانے کے ذمہ دار ہوں گے اور اس سے پہلے الیکشن کمیشن کو چاروں صوبوں، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات کروانے ہوں گے۔

انتخابات کے انعقاد کے علاوہ ای سی پی کو کئی دیگر چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جنہیں عوام اور ریاست کی مدد کے بغیر پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔

سب سے پہلا چیلنج ساکھ کا ہے اور ہر الکیشن کے بعد یہ چیلنج مزید مشکل بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ 11 انتخابات کے دوران ہر بار الیکشن کمیشن کو چند خاص نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن 1977ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہونے والی دھاندلی، 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں ریاستی خفیہ اداروں کی مداخلت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 2013ء کے عام انتخابات میں ہونے والی مبیّنہ دھاندلی کے خلاف 126 ایام پر مشتمل دھرنے، (یاد رہے کہ اس الزام کو بعدازاں عدالتی کمیشن نے مسترد کردیا) اور حال ہی میں 2018ء کے عام انتخابات میں ہونے والی مبیّنہ دھاندلی کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کے ’آزادی مارچ‘ سے انتخابی نظام کی ساکھ اور عوامی اعتماد کو کچھ زیادہ ہی ٹھیس پہنچی ہے۔

گزشتہ 2 انتخابات میں کچھ بہتری لانے کے باوجود بھی پاکستان میں اوسط ووٹر ٹرن آؤٹ 46 فیصد رہا۔ اس کے مقابلے میں یہی ٹرن آؤٹ بھارت میں 60 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 64 فیصد رہا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اب بھی بہت پیچھے ہیں۔

اس کم ٹرن آؤٹ کو ہمارے انتخابی نظام بالخصوص ای سی پی میں عوامی اعتماد کے فقدان سے جوڑا جاتا ہے۔ انتخابی نظام اور ای سی پی کی ساکھ کی بحالی کے بغیر ملک کی تمام تر جمہوری گورننس کو زبردست مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا۔

ای سی پی کو سب سے پہلے یہ جائزہ لینے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی کہ آخر وہ کون سے بنیادی مسائل ہیں جن کے باعث عوام اس پر بھروسہ نہیں کرتے اور پھر ان تمام مسائل کو منظم انداز میں حل کرنا ہوگا۔

اگرچہ حالیہ وقتوں میں انتخابات سے قبل سازبازیوں کے ذریعے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس پر ضابطہ لانا شاید ای سی پی کے دائرہ کار میں شامل نہیں۔ تاہم انتخابات سے پہلے ہونے والے حملوں سے انتخابات کے اخلاقی اصولوں کے تحفظ کی ذمہ داری ای سی پی پر ہی عائد ہوتی ہے۔

ساکھ کی کمزوری کی ایک اور وجہ ملک میں سیاسی فنانس کی مؤثر انداز میں نگرانی اور اسے کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ مثلاً، جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ انتخابات کے موقعے پر امیداوار قانونی طور پر مقرر کردہ حد سے زیادہ پیسے خرچ کررہے ہیں اور اس غیر قانونی کام کو روکنے کے لیے ای سی پی بے بس بنی ہوئی ہے تب ان کی نظروں میں انتخابی عمل اور کمیشن کی ساکھ کمزور ہوجاتی ہے۔

انتخابات کے اخراجات، سیاسی جماعتوں کو ملنے والا چندہ اور قانون سازوں کی جانب سے جمع کردہ اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات کی جانچ، سیاسی فنانس کے چند اہم پہلو شمار کیے جاتے ہیں۔

ملک میں سیاسی فنانس کی نگرانی اور اس کے کنٹرول کے لیے ای سی پی کو اپنی صلاحیت کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔

کچھ عرصہ پہلے ای سی پی نے سیاسی فنانس کا شعبہ قائم کیا تھا لیکن اس کے عملے کا معیار اور اس کی تعداد دونوں کو فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ حلقے کی سطح پر ہونے والی انتخابی مہم کی مؤثر مانیٹرنگ کے ذریعے ہی امیدواروں کے حد سے زیادہ اخراجات کو مؤثر انداز میں ضابطے میں رکھا جاسکتا ہے۔ بھارت ماضی کے انتخابات میں اس کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے۔ اگرچہ ای سی پی نے انتخابی حلقوں میں اپنے مانیٹرز کو تعینات کرنا شروع کردیا تھا لیکن نئی کمیشن کو پرانے تجربے سے حاصل ہونے والے اسباق کی روشنی میں نگرانی کے اس نظام کو مزید بہتر کرنا ہوگا۔

ای سی پی کے عملے میں معیار اور تعداد کے فقدان کو دُور کرنا ہوگا۔ 18ویں ترمیم نے ای سی پی کے فرائض میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فریضہ بھی شامل کردیا ہے لیکن اس اضافی فریضے کو انجام دینے کے لیے ای سی پی کو مطلوبہ انسانی وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔

ای سی پی کو نہ صرف اضافی عملہ فراہم کیا جانا چاہیے بلکہ اسے اپنے موجودہ معیار اور صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اپنے اصولوں پر بھی نظرِثانی کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو اپنے اسٹاف کی تواتر کے ساتھ ٹریننگ کروانی چاہیے اور اس مقصد کے لیے پورا سال ای سی پی کے اندر قائم الیکشنز ٹریننگ اکیڈمی کا بھرپور استعمال کیا جانا چاہیے۔

پاکستان ای سی پی کے ارکان کے چناؤ میں 2 فریقی اتفاق رائے کا نظام تشکیل دینے میں تو شاید خوش نصیب رہا لیکن اس طرح ممبران کے کندھوں پر اضافی بوجھ بھی رکھ دیا گیا ہے۔ ہر ایک کمشنر سے ان کا نام تجویز کرنے والی سیاسی جماعت کا نام جڑ جاتا ہے۔

کسی بھی رکن کا منتخب ہونے کے بعد یہ کام ہرگز نہیں کہ وہ کسی جماعت کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں بلکہ ان کا اوّلین کام قوم کی خدمت کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کسی مخصوص کمشنر پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور ای سی پی کی خودمختاری اور غیرجانبداری کی تصویر ابھارنے کے لیے میڈیا اور سول سوسائٹی دونوں کو آگے آنا چاہیے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ای سی پی کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بااعتماد تعلق جوڑنا بڑا ہی کٹھن کام رہا ہے۔ اب جبکہ کمیشن کی سربراہی ایک سابق سینئر سول سرونٹ کر رہے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ ای سی پی اصولوں پر سمجھوتے کے بغیر معنی خیز اور متواتر مشاورتی عمل کے ذریعے باآسانی سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرسکے گی۔

چونکہ میڈیا بھی ایک اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے ای سی پی کو چاہیے کہ وہ میڈیا کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ ای سی پی کو سینئر اور برجستہ گو افسران کے ذریعے عام دنوں اور بالخصوص انتخابی موسم میں متواتر میڈیا بریفننگ کے آپشن پر غور کرنا چاہیے۔

میڈیا کے شعبے سے وابستہ متعدد افراد بالخصوص نوجوان انتخابی نظام کے تکنیکی پہلوؤں سے ناواقف ہیں اس لیے ای سی پی کی جانب سے ان کے لیے ٹریننگ پروگراموں کا اہتمام ایک اچھا خیال ثابت ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال نئے چیلنجز کو جنم دے سکتا ہے لیکن ای سی پی کو سنجیدگی سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں اس کے بغیر کام چل سکتا ہے یا نہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں انتخابی نظام کو ٹیکنالوجی سے دُور نہیں رکھا جاسکتا۔ گزشتہ انتخابات میں ریزلٹس ٹرانسمیشن سسٹم یا آر ٹی ایس کا تجربہ کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ ای سی پی کو نہ صرف اس سسٹم کی ناکامی سے متعلق جاری تفتیشی عمل کو جلد از جلد مکمل کروانے پر زور دینا ہوگا بلکہ اگلے انتخابات سے پہلے اس سسٹم کو ہر قسم کی خامی سے پاک بنانے کے لیے ابھی سے اس پر کام شروع کردینا چاہیے۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ووٹنگ عمل کو قابلِ اعتبار بنانا بھی ای سی پی کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ انتخابی عمل میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر فی الحال کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے لیکن ای سی پی کو اس کے استعمال کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل ان مشینوں کو مسلسل آزماتے رہنا چاہیے۔

ای سی پی کے سامنے چند معروف زیرالتوا مقدمات موجود ہیں۔ جب کمیشن ان مقدمات اور ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے غیر ملکی فنڈنگ لینے کے معاملات پر فیصلہ کرنے بیٹھے گی تب اس کی خودمختاری اور اپنی خوداعتمادی کی حقیقی آزمائش کا وقت ہوگا۔


یہ مضمون 16 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

احمد بلال محبوب

لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024