سعودی عرب کشیدگی میں کمی نہیں چاہتا، ایران
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب، ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی نہیں چاہتا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ 56ویں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی خاص طور پر سعودی عرب کشیدگی میں کمی نہیں چاہتا کیونکہ وہ تہران پر اثر ڈالنے کی امریکی مہم کے زیراثر ہے۔
دوسری جانب پریس ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے خواہاں نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے امریکا نے انہیں اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت پر خبردار کیا ہو۔
مزید پڑھیں: ایران کو بات چیت سے قبل اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، سعودی عرب
انہوں نے کہا کہ ایک یا دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں جو ہمارے خطے میں کشیدگی چاہتےہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کئی علاقائی ممالک جیسے کویت، قطر، عمان اور عراق نے ایران کے ہرمز امن اقدام کا جواب دیا کیونکہ اس کا اقدام کا مقصد خلیج فارس میں سیکیورٹی یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کےلیے برادرانہ تعاون کے فروغ کے لیے سفارتی روابط کی کوششوں کے طور پر ایرانی صدر حسن روحانی نے سعودی عرب کے بادشاہ، بحرین کے شاہ، یو اے ای کے صدر، امیر کویت، قطر اور عمان کے مرحوم سلطان سمیت عراق کے صدر اور وزیراعظم کو تحریری خط لکھا لیکن ان میں سے 3 نے جواب نہیں دیا۔
دوران گفتگو انہوں نے ایرانی قدس فورس کے مقتول کمانڈر قاسم سلیمانی سے متعلق بات بھی کی، ساتھ ہی کہا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کو سعودی عرب کا پیغام موصول ہوا، ہم نے اس کی پیروی کی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اپنے پیغام میں سعودیوں کا کہنا تھا کہ ’ہم عزت کی بنیاد‘ پر ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں، اس پر ہم نے فوری طور پر اسی روز ہاں میں جواب دیا لیکن ان کا کوئی ردعمل نہیں آیا۔
ادھر تہران ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اگر تناؤ کم کرنے کی جستجو ہو تو بہت سے راستے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں سعودی عرب جسیے ممالک یہ نہیں چاہتے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہمارے خطے میں کشیدگی چاہتے ہیں تاہم ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب نے ایران کو او آئی سی اجلاس میں شرکت سے روک دیا
ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر وہ اور جنرل قاسم سلیمانی سعودی عرب کو یمن تنازع اور دیگر معاملات پر پیغام بھیجنے کے لیے راضی ہوئے تھے لیکن عرب کے شہزادے نے جواب دیا کہ عرب ممالک کے درمیان جنگ کا آپ سے کوئی سروکار نہیں۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے حصے کے طور پرمشرق وسطیٰ کی دو اہم ریاستوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ان دونوں ممالک کے دورے پر گئے تھے۔
اکتوبر 2019 میں کیے گئے ان دوروں میں وزیراعظم عمران خان نے پہلے ایران کی اہم قیادت سے ملاقات کی تھی جس کے بعد وہ سعودی عرب گئے تھے اور وہاں کی اعلیٰ قیادت سے بات چیت کی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر زور دیا تھا۔
سعودی وزیرخارجہ کا بیان
قبل ازیں اسی میونخ کانفرنس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا تھا کہ تہران اور دیگر ممالک کے درمیان کسی بھی طرح کی بات چیت سے قبل ایران کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔
شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب بھی کشیدگی میں کمی چاہتا ہے لیکن ایران مسلسل ’غیر محتاط رویے‘ اور ’عالمی معیشت کو دھمکی‘ دینے میں مصروف ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے لیے کوئی خفیہ پیغامات یا براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب تک ہم عدم استحکام کے اصل ذرائع کے بارے میں بات نہیں کرتے، گفتگو بے نتیجہ رہے گی۔
سعودیہ اور ایران کشیدگی
یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طویل عرصے سے پراکسی جنگ جاری ہے اور دونوں ممالک مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں اور دونوں شام اور یمن میں مخالف گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب یمن جنگ میں مسلسل ایران پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک ان کے اتحادی ہیں جبکہ ایران ان دعوؤں کو مسترد کرتا آیا ہے۔
تاہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری اس کشیدگی میں شدت گزشتہ برس 14 ستمبر کو پیش آئے اس واقعے کے بعد آئی تھی جس میں سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: ایران کا سعودی عرب سے یمن میں جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ
ان حملوں کے بعد سعودی عرب نے کہا تھا کہ یہ حملے یمن سے نہیں بلکہ ایران سے کیے گئے جبکہ امریکا نے بھی ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی۔
جس کے بعد خطے کی مجموعی صورتحال کافی کشیدہ ہوگئی تھی جبکہ اس کشیدہ صورتحال کا اثر رواں ماہ فروری میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں بھی نظر آیا تھا جہاں ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب نے جدہ میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں ایرانی وفد کو شرکت سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں 5 فروری کو عراق میں تعینات ایرانی سفیر ایرج مسجدی نے کہا تھا کہ ایران چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اختلافات جلد سے جلد ختم ہوجائیں۔