افغان امن مذاکرات میں اہم پیشرفت کے چند گھنٹوں بعد ہی فضائی حملہ، 8 شہری ہلاک
کابل: امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں اہم پیش رفت سے متعلق بیان کے محض چند گھنٹوں بعد ہی افغانستان میں فضائی حملے سے کم از کم 8 شہری ہلاک ہوگئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر نے افغان صدر اشرف غنی سے میونخ میں ملاقات کی۔
ان کی یہ ملاقات میونخ میں منعقدہ انٹرنیشنل سیکیورٹی فورم کی تقریب کے سائیڈ لائنز میں ہوئی۔
مزید پڑھیں: افغانستان: انسداد منشیات کے سربراہ کو اسمگلروں سے تعاون پر 17 سال قید
امریکی حکام کے مطابق افغان امن معاہدے کا سب کو بے صبری سے انتظار ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اصولی طور پر معاہدے کے لیے اتفاق کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں حتمی تفصیلات پر امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان دوحہ میں بحث ہوئی۔
زلمے خلیل زاد بھی اس وقت میونخ میں موجود ہیں جہاں انہوں نے مائیک پومپیو اور مارک ایسپر سے ملاقات کی۔
علاوہ ازیں افغانستان میں موجود بین الاقوامی فورس کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی وہاں موجود تھے۔
فضائی حملے سے متعلق مقامی لوگوں کے مطابق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہارمیں فضائی حملے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں عام شہری سوار تھے۔
واضح رہے کہ صوبے ننگر ہار میں طالبان کا اثر و رسوخ ہے۔
گورنر ننگر ہار کے ترجمان نے واقعے کی تصدیق کی تاہم یہ نہیں بتایا کہ متاثرہ افراد کون تھے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ فضائی حملے میں 11 شہری ہلاک ہوئے۔
افغان، طالبان اور امریکی ذرائع نے حملے سے قبل 48 گھنٹوں کے دوران ہی کہا تھا کہ امن معاہدہ نفاذ کے قریب تر ہے۔
واضح رہے کہ 13 فروری کو افغان وزارت دفاع کے مطابق صوبے بلخ میں ایک فضائی حملے میں سینیئر طالبان کمانڈر اور دیگر 8 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں فوجی اڈے پر فائرنگ، 2 امریکی فوجی ہلاک
دوسری جانب طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قندوز صوبے کے ایک چیک پوائنٹ پر حملہ کرکے 2 افسران سمیت 6 افغان فوجی ہلاک کیے ہیں۔
سینیئر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان میں عارضی معاہدہ ہوچکا ہے جس کا نفاذ جلد ہوجائے گا اور اس سے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ممکن ہوسکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پر تشدد کارروائیوں کو 7 روز کے لیے روکنے کے معاہدے کے بعد افغان امن مذاکرات کا 10 روز میں آغاز ہوگا اور یہ ملک بھر میں ہوگا جس میں افغان حکومتی فورسز بھی شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'اس بات کے اشارے ہیں کہ اس کا باضابطہ اعلان رواں ہفتے کے اختتام پر کردیا جائے گا'۔
حکام جنہیں معاملات پر عوام کے سامنے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کا کہنا تھا کہ طالبان نے سڑک کنارے اور خودکش دھماکوں سمیت راکٹ حملے روکنے کا وعدہ کیا ہے، امریکی حکام معاہدے کی پاسداری کے بارے میں نگرانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ کہیں خلاف ورزی تو نہیں کی جارہی۔
امن مذاکرات کی معلومات رکھنے والے طالبان حکام کا کہنا تھا کہ دوسرے معاہدے پر 29 فروری کو دستخط کیے جائیں گے جبکہ افغان مذاکرات کا آغاز 10 مارچ کو ہوگا۔