چین: کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 1500 سے تجاوز کرگئی
چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 15 سو سے تجاوز کرگئی تاہم گنتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بعد نئے کیسز کی تعداد میں اب کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق چین میں 66 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ 17 سو ہیلتھ ورکرز بھی اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے 6 ہلاک ہوچکے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے آگاہ کیا کہ وبا نے ملک میں صحت کی ہنگامی صورتحال کے ردعمل کے نظام کو بے نقاب کردیا۔
مزید پڑھیں: چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1380 تک پہنچ گئیں
ریاستی میڈیا کے مطابق رواں ہفتے حکومتی اصلاحات سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شی جن پنگ نے کہا کہ وبا کا مقابلہ کرنا ملک کے حکومتی نظام اور حکومتی قابلیت کے لیے بڑا امتحان ہے۔
چینی حکام نے ہوبے میں 5 کروڑ 60 لاکھ افراد کو قرنطینہ جو ملک کے دیگر حصے کو وائرس کا شکار ہونے سے بچانے کی غیر معمولی کوشش ہے۔
تاہم کورونا وائرس کی وبا دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے اور دو درجن سے زائد ممالک میں سیکڑوں کیسز سامنے آئے ہیں۔
سنگاپور میں اب تک کورونا وائرس کے 67 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے اور رومن کیتھولک چرچ نے کہا ہے کہ انہوں نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تمام افراد کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردیا ہے جبکہ یوٹیوب اور ریڈیو پر سروسز جاری رہیں گی۔
چند نئے کیسز
نیشنل ہیلتھ کمیشن نے رپورٹ کیا کہ 143 نئی ہلاکتوں کے بعد کورونا وائرس سے ہونے والی اموات ایک ہزار 5 سو 23 تک پہنچ گئی۔
کمیشن نے یہ رپورٹ کیا کہ کووڈ-19 کے 2 ہزار 6سو 41 نئے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن کی اکثریت ہوبے میں موجود تاہم یہ تعداد گزشتہ روز رپورٹ کیے گئے کیسز کے مقابلے میں نصف ہے۔
ہوبے میں حکام کی جانب سے گنتی کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے بعد رواں ہفتے وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔
کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے ڈر سے 3 بچوں کے باپ نے خودکشی کرلی
ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔
ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔