ہمارے لیے کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو پاکستان کیلئے ہے، ترک صدر
ترک صدر رجب طیب اردوان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر پر ایک مرتبہ پھر پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے لیے کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو چناق قلعے کی تھی۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرِ صدارت مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا جس میں 2 روزہ دورہ پر آئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے خطاب کیا۔
مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی خدمت میں 'سلامِ محبت' پیش کرتا ہوں اور دونوں ممالک کی قیادت کو یکجا کرنے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سرکاری دورے پر آپ سے مخاطب ہونا مسرت اور دلی خوشی کا باعث ہے، اس مشترکہ اجلاس سے خطاب کا موقع فراہم کرنے پر میں علیحدہ علیحدہ آپ سب کا شکر گزار ہوں۔
ترک صدر نے کہا کہ میرے اسلام آباد میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی جس طریقے سے پاکستان کے عوام نے خوشی اور محبت سے استقبال کیا، میں اس پر پاکستانی قوم اور اعلیٰ حکام کا تہہ دل سے مشکور ہوں، میں یہاں پاکستان میں کبھی بھی اپنے آپ کو اجنبی ملک میں محسوس نہیں کرتا۔
رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات سب کے لیے قابل رشک ہیں، سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابر اور دیگر مغل حکمرانوں نے موجودہ پاکستان سمیت تمام خطے پر تقریباً 350 سال حکومت کی اور ہماری مشترکہ تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
ترک صدر نے کہا کہ ہمارے صدارتی نشان جس پر ترکوں کی جانب سے قائم کردہ 16 ریاستوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں، ان میں سے ظہیر الدین بابر کی قائم کردہ مغلیہ سلطنت اور غزنویوں کی سلطنت کے ستارے چمک رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد اﷲ خان غالب، تحریک خلافت کے روح رواں جوہر برادران، بلقانی جنگوں کے موقع پر سلطنت عثمانیہ کے فوجی دستوں کی مدد کرنے کے لئے آنے والے عبدالرحمان پشاوری جیسی ہستیاں ہماری مشترکہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانے والی ہستیوں میں سے چند ایک ہیں۔
رجب طیب اردوان نے کہا ترکی اور پاکستان کے تعلقات شاعر اعظم محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثہ ہی کے نتیجہ میں موجودہ دور تک پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1915 میں جب ترک فوج چناق قلعے کا دفاع کررہی تھی تو اس محاذ سے 6 ہزار کلو میٹر دور اِس سرزمین پر ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں ہماری تاریخ کے ناقابل فراموش صفحات پر درج ہوچکے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور میں ہونے والے ان تاریخی جلسوں کا مرکز نگاہ چناق قلعے ہی تھا، ان جلسوں کا انتظام کرنے والے منتظمین دراصل چناق قلعے میں برسرپیکار ترک فوجیوں اور ترک قوم کی امداد کا مقصد لیے ہوئے تھے۔
’پاکستانی عوام کی مدد کو فراموش نہیں کرسکتے‘
ترک صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر جس طرح ضرورت کے وقت ترکی کی مدد کی ہم اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتے نہ کریں گے اور ہمارے لیے اس وقت کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو آپ کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کشمیر وہی ہے جو کل چناق قلعے تھا ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات ایسے ہیں جو شاید ہی دنیا میں کسی ممالک کے درمیان دیکھنا ممکن ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دکھ اور درد ہمارا دکھ اور درد ہے، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی، اس کی کامیابی و کامرانی ہماری کامیابی اور کامرانی ہے اور اس سوچ کے ساتھ ہم حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریوں کے موقع پر اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے دوڑے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ اپنے بھائیوں کی جنگ استقلال میں شرکت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شوکت علی اور محمد علی جوہر کو ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں ہم کبھی بھی نہیں بھولیں گے۔
ترک صدر نے کہا کہ ہم حیدرآباد سے لے کر اسلام آباد تک اپنے تمام بہن بھائیوں کی ترکی کے لیے اور ترکی کی جنگ استقلال کے لیے سجدوں میں گڑگڑا کر دعائیں کرنے والوں کو کیسے بھول سکتے ہیں ہم انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم شدید دباؤ، دھمکیوں اور غربت کا شکار ہونے کے باوجود ترکوں کو تنہا نہ چھوڑنے والے وفا کے پیکر ان بھائیوں کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں؟
رجب طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ازل سے چلنے والے ہمارے برادرانہ تعلقات تاابد قائم رہیں گے کیونکہ ہمارا اخوت کا رشتہ، رشتے داری نہیں بلکہ دل کی لگن کا رشتہ ہے، ہماری دوستی مفاد پر مبنی نہیں بلکہ عشق و محبت سے پروان چڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دکھ اور درد ہمارا دکھ ہے، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی، اس کی کامیابی و کامرانی ہماری کامیابی اور کامرانی ہے، اس سوچ کے ساتھ ہم نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریوں کے موقع پر اپنے تمام امکانات بروئے کار لاتے ہوئے پنے بھائیوں کی مدد کے لیے دوڑے۔
ترک صدر نے کہا کہ 15 جولائی کی ناکام بٖغاوت جس میں 251 انسان شہید ہوگئے تھے، پاکستان کے عوام کی دعاؤں کو ہم نے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان کے حکام نے دہشت گرد تنظیم سے منسوب اسکولوں نے ترکی کی معارف فاؤنڈیشن کے حوالے کرتے ہوئے ہماری قوم کے حقیقی دوست ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے اکتوبر میں شام کے شمال میں شروع کیے گئے چشمہ امن فوجی آپریشن کی ایک مرتبہ پھر ہماری بھرپور طریقے سے حمایت کی، صرف زبانی طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں کے برعکس پاکستان نے ترکی کی حق بجانب جدوجہد میں بھرپور ساتھ دیا۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ الازیغ اور مالاطیہ میں آنے والے زلزلوں کے موقع پر پاکستان کے سرکاری حکام سے لے کر ایک عام آدمی تک سے ہمیں تعاون اور یکجہتی کے پیغامات موصول ہوئے، میں اس موقع پر ایک مرتبہ پاکستان کے عوام کا ترکی کے ہر دکھ اور درد اور خوشی میں شامل ہونے پر اپنی قوم کی جانب سے شکر گزار ہوں۔
’ایف اے ٹی ایف میں حمایت کا یقین دلاتے ہیں‘
ترک صدر نے کہا کہ پاکستانی بھائیوں کی جانب سے ترکوں کی دوستی پر پختہ یقین رکھنے کا طلبگار ہوں، ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ہم پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ اس دائرہ کار میں موجودہ دور کے اہم موضوع فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاسوں میں پاکستان پر ڈالے جانے والے سیاسی دباؤ کے باوجود ہم پاکستان کی بھرپور حمایت کا پختہ یقین دلاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی اور خوشحالی کے سفر کی جانب رواں دواں ہے بلاشبہ اقتصادی ترقی ایک، دو دن میں عمل میں نہیں آتی اس کے لیے خوب محنت اور مںصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے، عزم، یقین اور خود اعتمادی سے کام لینا پڑتا ہے۔
ترک صدر نے کہا کہ ترقی کے حصول میں استحکام اور اعتماد لازم و ملزوم عوامل ہیں، مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے قانون ساز اداروں، مجلس عاملہ، فوجی اداروں کے تعاون میں جاری جدوجہد کے ثمرات جلد ملنا شروع ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاروبار اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری لانے کے لیے آسان بنانے والے اقدامات پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے جاذبِ نظر بنارہے ہیں۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ میں ترکی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ آیا ہوں، نماز جمعہ کے ہم پاکستان-ترکی مشترکہ ورکنگ گروپ اجلاس میں سرمایہ کاروں کے ساتھ یکجا ہوں گے۔
ترک صدر نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے دورہ ترکی کے دوران باہمی روابط کو مزید مضبوط کرنے پر مطابقت قائم ہوئی تھی اور ہم نے متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کردی تھی، آج طے پانے والے اسٹریٹجک اور اقتصادی فریم ورک اور عملی منصوبے کا متن تجارت سے لے کر انفرا اسٹرکچر تک، سرمایہ کاری سے لے کر سیاحت تک مختلف معاملات میں ہمارے لیے ایک روڈ میپ ہوگا۔
’دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، پاکستان خطے میں عدم اعتماد، دہشت گردی اور جھڑپوں سے بری طرح متاثر ہونے والا ایک ملک ہے۔
ترک صدر نے کہا کہ ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہیں، انسداد دہشت گردی کے معاملات میں ہم پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان اور ترکی اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دہشت گردی کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔
’ ترکی کا اولین ہدف خونریزی کا خاتمہ ہے ‘
ترک صدر نے کہا کہ مذہب، قبیلے، زبان کا فرق عالمی سطح پر تسلیم شدہ بھائی چارے سے ہرگز فوقیت نہیں حاصل کرسکتا،کوئی بھی سرحد، کوئی بھی فاصلہ مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار حائل نہیں کرسکتا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے چاہے کسی مقام پر کیوں نہ ہوں، مسلمان بھائیوں کے دکھ اور درد میں برابر کا شریک ہونا، اگر ان پر ظلم ہورہا ہو تو ان کا ساتھ دینا ہم سب کا فرض ہے کیونکہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ چاہے کوئی بھی ہو ظلم کے سامنے رضامندی ظلم کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین، قبرص اور کشمیر سمیت دیگر حق بجانب معاملات پر ڈٹتے ہوئے تنازعات کا حل نکالنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔
ترک صدر نے کہا کہ ہم شام میں جنگ اور ملکی انتظامیہ کے مظالم کی وجہ سے فرار ہونے والے 40 لاکھ کے قریب شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کررہے ہیں۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ مالی اعتبار سے ہم سے کئی گُنا امیر ممالک نے شامیوں کو اپنے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے، ہم ان پر 40 ارب ڈالر سے زائد رقوم خرچ کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لیبیا سے لے کر یمن تک جھڑپوں والے وسیع رقبے میں ترکی کا اولین ہدف خونریزی، تباہ کاریوں اور آنسوؤں کے سیلابوں کا سدباب کرنا ہے خاص طور پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی صدارت کے دوران ترکی نےمسلم امہ سے متعلق تمام اہم معاملات میں فعال کوششیں کیں۔
’ٹرمپ کا منصوبہ، قبضے کا منصوبہ ہے‘
ترک صدر نے کہا کہ ہم نے قبلہ اول، بیت المقدس پر اسرائیل کے حملوں کے سامنے باوقار اور پرعزم موقف کا ڈٹ کر مظاہرہ کیا ہے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ خاص طور پر حالیہ دنوں میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان مشرق وسطیٰ سے متعلق اٹھائے جانے والے اقدامات، حالیہ صدی کی منصوبہ بندی کا پلان ،ایک امن منصوبہ نہیں بلکہ قبضے کا منصوبہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دنیا بھر کے سامنے کہا کہ بیت المقدس ہماری سرخ لکیر ہے لہذا ہم نے اعلان کیا ہے کہ حرم شریف کو قابض اسرائیلی انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
ترک صدر نے کہا کہ چند ہفتے قبل امریکی انتظامیہ کی جانب سے صدی کے منصوبے کے نام سے اعلان کردہ قبضے، الحاق اور تباہی کے منصوبے کے خلاف سب سے سخت ردعمل کا مظاہرہ ہم نے کیا ہے۔
’ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘
مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں کشمیر کا دفاع کرتے ہوئے ہم نے اس مسئلے پر ہماری ملک کی حساسیت کا ایک مرتبہ پھر برملا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے کشمیری بھائیوں کو سالوں سے درپیش مشکلات میں حال ہی اٹھائے گئے یک طرفہ اقدامات سے مزید اضافہ ہوا ہے، یہ مسئلہ مزید خطرناک صورتحال اختیار کرگیا ہے، پہلے سے ہی مشکل حالات میں کشمیریوں سے آزادی اور حاصل شدہ حقوق کو چھیننا کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
ترک صدر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جھڑپوں یا جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف کے احساس پر مبنی ہے، اس طریقے سے حاصل کیا جانے والا حل تمام فریقین کے مفاد میں ہوگا۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی، مسئلہ کشمیر کو انصاف، امن اور مذاکرات کے ذریعے حل کیے جانے کے موقف پر قائم رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن عمل میں پاکستان کی مثبت خدمات قابل تحسین ہیں، ترکی اس سلسلے میں اپنے دو برادر ممالک سے لازمی تعاون قائم جاری ہوئے ہے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس
قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس کے آغاز میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ رجب طیب اردوان پاکستان کے سچے دوست اور مسلم امہ کے رہنما ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 22 کروڑ پاکستانی عوام کا منتخب ایوان، ترک صدر کو خوش آمدید کہتا ہے اور ساتھ ترکی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر منصفانہ مؤقف اختیار کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
مشترکہ اجلاس کے آغاز پر ترکی اور پاکستان کے قومی ترانے پڑھے گئے، جس کے بعد تلاوت قرآن پاک کی گئی اور نعتِ رسول مقبولﷺ پڑھی گئی۔
اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ آمد پر وزیراعظم عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ترک صدر رجب طیب اردوان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔
مشترکہ اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان، حکومتی رہنما، وفاقی وزرا اور اپوزیشن اراکین سمیت گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان، وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک، شیری رحمٰن اور راجا پرویز اشرف، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے شرکت کی۔
رجب طیب اردوان گزشتہ روز 2 روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے جس کا مقصد دوطرفہ تزویراتی شراکت داری اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
مزید پڑھیں: پاک۔ترک صدور کی ملاقات: مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنے پر اتفاق
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا تھا کہ میں اسے ایک بڑے بھائی کی چھوٹے بھائی سے ملاقات سمجھ رہا ہوں، ترکی کے عوام کا پاکستان کے عوام سے جو محبت کا رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور میری دعا ہے کہ اس سے مسلم امہ کو ایک قیادت ملے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے کہا تھا کہ ترکی برادر اسلامی ملک ہے اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور ترکی نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی ہے۔
اردوان کا مشترکہ پارلیمنٹ سے چوتھا خطاب
واضح رہے کہ رجب طیب اردوان کو بطور ترک وزیراعظم دو بار پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور آج انہوں نے بحیثیت صدر دوسری مرتبہ پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔
اس سے قبل انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران 2016 میں پاکستان کا آخری دورہ کیا تھا اور پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا تھا۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اراکین نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی مبینہ کرپشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
رجب طیب اردوان نے بطور وزیر اعظم 26اکتوبر، 2009اور 21مئی، 2012 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر چکے ہیں۔
انہوں نے بحیثیت صدر نومبر 2016 کو پہلی مرتبہ خطاب کیا تھا جبکہ اور 14فروری 2020کو دوسرا خطاب کیا۔
صدر رجب طیب اردوان کے خطابات سے قبل ترکی کے صدر کینان ایورن نے 15 نومبر 1985 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ترکی کے درمیان 2 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط
خیال رہے کہ ترک صدر، پاکستان کی قومی اسمبلی/سینیٹ /مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والی 21 ویں غیرملکی جبکہ موجودہ پارلیمنٹ سے خطاب کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔
ترک صدر کی پاکستان آمد
گزشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردوان، وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر 2 روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے نور خان ایئربیس پر ترک صدر رجب طیب اردوان اور ان کی اہلیہ امینہ اردوان کا استقبال کیا۔
ترک صدر کی آمد کے موقع پر نور خان ایئربیس پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں استقبالی پوسٹرز بھی آویزاں کیے گئے تھے۔
بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان نے ایئربیس سے وزیر اعظم ہاؤس تک ترک صدر کی گاڑی خود ڈرائیو کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کا دورہ پاکستان، 14 فروری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے
وزیر اعظم ہاﺅس میں ترک صدر کے اعزاز میں باضابطہ استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، اس موقع پر مسلح افواج کے چاق و چوبند دستوں نے ترک صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔
بعدازاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان پاکستانی ہم منصب ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کے لیے ایوان صدر پہنچے تھے جہاں صدر پاکستان نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا تھے۔
ملاقات کے دوران ڈاکٹر عارف علوی نے دونوں ممالک کے مابین بہتر اور کثیرالجہتی تعلقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اعلیٰ سطح کے اسٹرٹیجک تعاون کونسل کے چھٹے اجلاس سے پاکستان اور ترکی کے درمیان برادرانہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور ان کو وسعت ملے گی۔
رجب طیب اردوان دو طرفہ، خطے اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کریں گے۔
علاوہ ازیں رجب طیب اردوان اور وزیراعظم عمران خان، پاکستان-ترکی ہائی لیول اسٹریٹیجک کوآپریشن کونسل (ایچ ایل ایس سی سی) کے چھٹے اجلاس کی مشترکہ صدارت کریں گے اور پاکستان-ترکی بزنس اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے بھی خطاب کریں گے۔
بعدازاں اجلاس میں طے پانے والے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب ہوگی، وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کا امکان بھی ہے۔