نئی دہلی کے انتخابات میں شکست مودی کو منہ توڑ جواب ہے، ممتا بینرجی
بھارتی کی مغربی بنگال ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے نئی دہلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کی کامیابی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی متنازع پالیسیوں کا منہ توڑ جواب قرار دے دیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ممتا بینرجی نے اے اے پی کے سربراہ اروند کیجریوال کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ 'لوگوں نے بی جے پی کی پالیسیوں کو مسترد کردیا اور عام آدمی پارٹی کی جیت دراصل جمہوریت کی جیت ہے'۔
مزید پڑھیں: غیر حتمی نتائج: نئی دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کو بدترین شکست
انہوں نے کہا کہ نئی دہلی میں طلبا و طالبات اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو 'منہ توڑ' جواب مل گیا۔
ممتا بینرجی نے کہا کہ 'بی جے پی کی دسترس سے ایک کے بعد ایک ریاست نکل رہی ہے اور بہت جلد وہ تمام ریاستوں پر اپنا کنڑول کھو بیٹھے گی'۔
انہوں نے دہرایا کہ 'بی جی پی نے نئی دہلی میں طالبات اور خواتین پر تشدد کیا تھا اور اب نئی دہلی کے ریاستی انتخابات میں انہیں بروقت اور منہ توڑ جواب مل گیا'۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ 'نریندر مودی اور امیت شاہ کی بی جے پی کو 2021 میں بنگال کے انتخابات میں اسی قسم کی بدترین شکست کا سامنا ہوگا'۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی کے انتخابات میں مودی کی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا، ایگزٹ پول نتیجہ
ممتا بینرجی نے کہا کہ 'لوگ صرف ترقیاتی کام سے متاثر ہوتے ہیں، لوگ بی جے پی کی انتہا پسندانہ پالیسیاں، شہریت ترمیمی قانون، این سی آر اور نیشنل پاپولیش رجسٹریشن (این پی آر) کو مسترد کردیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے سوا ملک میں بے روزگاری، معیشت، ترقی، صنعت اور قیمتوں میں اضافے جیسے اہم مسائل غور طلب ہیں۔
ممتا بینرجی نے بی جے پی سے متعلق کہا کہ گزشتہ برس انہیں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں شکست ہوئی تھی اور اس دوران وہ کسی نہ کسی طرح پارلیمانی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور مرکز میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی پوری بے باکی اور سیاسی انتقام کے ساتھ سامنے آئی جس کے نتیجے میں ملک نفرت کی آگ میں جل رہا ہے'۔
بینرجی نے بی جے پی پر جھوٹ پھیلانے کے لیے 'نام نہاد' این جی اوز اور مذہبی تنظیموں کا استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے کہا کہ 'نریندر مودی اور امیت شاہ نام نہاد این جی اوز اور نام نہاد مذہبی تنظیموں کے ذریعے برادریوں کے مابین غلط پروپیگنڈا اور افواہیں پھیلا رہے ہیں'۔
مزید پڑھیں: مودی جی! بی جے پی کی شکست سے سبق حاصل کریں
بھارت میں نئی دہلی کے ریاستی انتخابات کے سرکاری مگر غیر حتمی نتائج کے مطابق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا ہے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ پر جاری غیر حتمی نتائج کے مطابق نئی دہلی کے ریاستی انتخابات میں اے اے پی کو 70 میں سے 46 نشستوں پر کامیابی جبکہ 16 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔
علاوہ ازیں بتایا گیا کہ بی جے پی کو صرف 5 نشستوں پر کامیابی جبکہ 2 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے حتمی نتائج کا اعلان ہونا باقی ہے۔
متوقع جیت کے پیش نظر نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اور اے اے پی کے سربراہ اروند کیجریوال نے نئی دہلی کے ریاستی انتخابات میں کامیابی کو 'نئی سیاست کی پیدا' قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: انتخابات میں 'بی جے پی' کو شکست دینے کیلئے سیاسی جماعتوں کا اتحاد
انہوں نے کارکنوں سے خطاب کے دوران کہا کہ 'میں نئی دہلی کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے بیٹے کو ایک مرتبہ پھر کامیاب بنایا'۔
خیال رہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں نے انتخابی مہم کے دوران متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کی حمایت کرنے والے اپوزیشن کے اراکین پر سخت تنقید کی تھی لیکن وہ 2015 سے دہلی میں حکومت کرنے والے کیجریوال کی جماعت کو شکست دینے میں ناکام رہے۔
عام آدمی پارٹی نے 2015 میں دہلی اسمبلی کی 70 میں سے 67 نشستوں میں کامیابی حاصل کی تھی جو ایک ریکارڈ ہے اور مہم کے دوران کیجریوال نے بجلی، پانی اور صحت سمیت عوامی مسائل کو موضوع بنایا۔
بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ دہلی کا انتخاب متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی مسلمان خواتین کے خلاف ریفرنڈم ثابت ہوگا جہاں خواتین شاہین باغ میں 15 دسمبر سے اس قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: نریندر مودی کیلئے ’پپو‘ کون؟
بھارت کی حکمران جماعت نے مہم میں ووٹرز سے کہا تھا کہ اگر وہ شاہین باغ کے احتجاج کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بی جے پی کو ووٹ دے کر کامیاب بنائیں۔
قبل ازیں بی جے پی کو مہاراشٹرا میں حال ہی میں ریاستی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب دہلی میں شکست کے بعد تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بی جے پی کے حوالے سے عوامی رائے کا اندازہ لگانا آسان ہے۔