سندھ: صدر زرداری کے بعد
سندھ سے متعلق نواز شریف کی کیا پالیسی ہے؟ کچھ واضح نہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں تک گئے، مگر سندھ کا دورہ نہیں کیا۔ انہوں نے مزار قائد پر حاضری بھی نہیں دی۔ یوں اُنہوں نے سالہاسال کی روایت توڑدی کہ ہر وزیراعظم اور صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مزار پرحاضری دینا لازم ہے۔ اتنی بڑی روایت توڑی گئی مگرہماری باشعور میڈیا کی توجہ ایک لمحے کے لیے بھی اس طرف نہیں گئی۔ اگر کسی اور صوبے کا وزیراعظم ایسا کرتا تو میڈیا انہیں کم از کم ملک دشمنی کا سرٹیفکیٹ دے چکی ہوتی۔
مزار قائد پر حاضری نہ بھرنے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ شاید انہیں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پروٹوکول نہ دے۔ یعنی سندھ حکومت ان کے ساتھ وہی رویہ رکھے جو گزشتہ دور میں پیپلز پارٹی کے وزیراعظم اور صدر کے ساتھ پنجاب حکومت نے روا رکھا۔ یا یہ کہ نواز شریف چاہتے ہوں کہ کراچی میں ان کااستقبال ان کاکوئی’’اپنا آدمی‘‘ کرے۔
’’اپنا آدمی ‘‘دو صورتوں میں آسکتا ہے۔ پہلی صورت یہ کہ نیا صدر آئے اور وہ نواز لیگ کے حلقے سے نیا گورنر مقرر کرے اور وہ میاں صاحب کا استقبال کرے۔ یا پھر سندھ میں نواز لیگ کی پسند کی حکومت بنے۔ اس میں پہلی صورت زیادہ آسان ہے۔ نئے صدر کے عہدہ سنبھالنے میں تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ وزیراعظم تب تک کراچی نہیں آئیں گے، جب تک ان کو’’اپنا آدمی‘‘ نہیں ملتا؟
وزیراعظم تو پورے ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے۔ سیاست میں ذاتیات کو شامل کرنا کسی بھی طور پر اچھی روایت نہیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نواز شریف سندھ کو چھوڑکر باقی ملک کے وزیراعظم ہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان پہلے وفاقی وزیر تھے جنہوں نے لیاری کی صورتحال کی وجہ سے ہی سہی، کراچی کا دورہ کیا۔انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ امن امان سے متعلق اجلاس کی صدارت کی اور گورنر ہاؤس میں گورنر اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ چوہدری نثار علی نے کوئی جارحانہ بیان بھی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی ایسا قدم اٹھایا، پھر بھی ان کے دورے کو سندھ کے سیاسی اورصحافتی حلقوں میں کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اس کی بڑی وجہ سندھ میں گورنر راج کا خطرہ ہے۔ جس کا الارم پیپلز پارٹی بجاتی رہی ہے۔ اس مضبوط تاثر کی وجہ سے کسی بھی حلقے سے چوہدری نثار علی خان کے دورے کا خیرمقدم نہیں کیا گیا۔
نواز لیگ سندھ میں اپنی پالیسی کے پتے چھپائے ہوئے ہے وہ یہ پتے ابھی’’شو‘‘ نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ صدر آصف زرداری ایون صدر سے باہر نکلیں، اس کے بعد اپنا کھیل شروع کرے۔ وہ اس وجہ سے بھی کہ اس کے بعد وفاقی اداروں تک پیپلز پارٹی کی رسائی ختم ہو جائے گی اورنواز شریف کو اپنا کھیل آسانی سے کھیل سکیں گے۔
پارٹی کے حلقے اور ترجمان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد آصف علی زرداری ملک میں ہی رہیں گے۔ مگر عملی طور پر ایسا نظر نہیں آتا۔ اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں گے۔ کبھی کبھار واپس وطن آتے رہے۔ لیکن وہ بھی تب ممکن ہے کہ ان کے خلاف مقدمات نہ ہو یا نواز شریف ان کے خلاف سیاسی انتقامی کاروائیاں نہ کریں وغیرہ۔ محترمہ تو لیڈر آف اپوزیشن تھیں۔ آصف علی زرداری کے پاس سرکاری طور پر کوئی عہدہ نہیں۔ وہ اسمبلی کے ممبر بھی نہیں۔ ایسے میں وہ ملک میں رہ کر کیا کریں گے؟ وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ سرکاری طور پر اسمبلیوں میں پیپلز پارٹی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی پارلمنٹیرین ہے۔ جس کے چیئرمین مخدوم امین فہیم ہیں۔
خیال ہے کہ آصف علی زرداری کے صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد پیپلز پارٹی میں بعض تبدیلیاں متوقع ہیں۔
مخدوم امین فہیم جو کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہیں ان کو نہ تو پارٹی نے لیڈر آف اپوزیشن مقرر کیا اور نہ ان کے بھائی یا بیٹے کو سندھ میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا۔ مخدوم خاندان کی پرانی ناراضگیاں اپنی جگہ پر، مگر یہ دو نئی ناراضگیاں اہم ہیں۔
یہ بہت بڑا سوال ہے کہ پاکستان میں پارٹی کی قیادت اور فیصلے عملی طور پر کون کرے گا؟ بلاول بھٹوزرداری انتخابات سے پہلے ہی منظر سے غیر حاضر ہیں اور انتخابات کے بعد بھی منظر پر ان کی واپسی نہیں ہوسکی ہے۔ سیاسی مارکیٹ میں یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ باپ بیٹے کے درمیا ن اختلافات ہیں۔
آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپورسندھ میں پارٹی اور حکومتی امور دیکھتی رہی ہیں۔ لیکن یہ تب کی بات ہے جب وفاق میں بھی پارٹی کی حکومت تھی۔ کیا ا ب بھی ایسا ہوتا رہے گا؟ خاص طور پر اس وقت جب زرادری اور بلاول ملک میں موجود نہ ہوں؟ شاید ایسا نہ ہو سکے۔ کیا ایم این ایز اور ایم پی ایز ان کے کہنے میں رہیں گے؟
مخدوم امین فہیم اور فریال تالپور کے تعلقات بھی بہت زیادہ خوشگوار نہیں۔ سیاسی پنڈت اس آپشن کو خارج ازامکان قرار نہیں دیتے کہ ایک مرتبہ صدر زرداری ایک طرف ہوگئے اور دباؤ بڑھے گا تو اس کے ساتھ مختلف لابیاں اور گروپ سرگرم ہو جائیں گے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں گورنر راج کا خوف ظاہر کررہی ہے۔ مگر سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کا اظہار نہیں کیا جارہا۔ وہ پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک کا اُبھرنا۔ جیسے مشرف کے زمانے میں پیپلز ارٹی میں پیٹریاٹ کے نام سے ایک بلاک بنایاگیا تھا۔ اس مرتبہ یہ پرانا مگر آزمودہ نسخہ سندھ میں آزمایا جاسکتا ہے۔ نئے پیٹریاٹ گروپ بننے کے بعدایم کیو ایم بھی مخلوط حکومت کا حصہ بن سکتی ہے جو آج پیپلز پارٹی کے بار بار بلانے کے بعد بھی حکومت سے باہر بیٹھی ہے۔
فاروڈ بلاک کے حوالے سے سابق صوبائی وزیر خوراک نادر مگسی کے حالیہ بیان کافی وزن رکھتا ہے ۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’فی الحال ‘‘ فاروڈ بلاک نہیں بنایا جارہا ہے۔ اور اعتراف کیا کہ میڈم فریال تالپور جو کہ سندھ میں پارٹی اور حکومت کے امور دیکھ رہی ہیں ان سے اختلافات ہیں۔
سندھ میں بعض بااثر اراکین کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ لوگ پارٹی قیادت سے ناخوش ہیں۔ جبکہ جام خان شورو یا دوست علی راہموں جیسے نئے چہرے کابینہ میں ہیں مگر وہ بھی خوش نہیں کہ انہیں کوئی اچھی وزارت نہیں دی گئی۔ ایک بار اگر اسپیس مل گیا توڈاکٹر ذوالفقارمرزا جیسے لوگ بھی موجود ہیں جوموقعہ ملنے پراچھی شطرنج کھیل سکتے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ فارورڈ بلاک کا سامان موجود ہے اور صرف وقت کا انتظار ہے۔
یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بعض نئے اور پرانے وزراء کی کرپشن کے کیسز بھی سامنے لائے جائیں گے۔ یہ آلہ روایتی طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے اورایک بار پھر یہ آلہ فارورڈ بلاک بنانے میں کام آسکتا ہے۔
مرکز میں خواہ نوازشریف کو کتنی ہی اکثریت حاصل کیوں نہ ہو مگر سندھ میں سیاسی شرکت اور عددی حمایت کے حوالے سے بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ یہاں ان کی پارٹی کا وجود خال خال ہے۔ اگر ایم کیو ایم سے معاہدہ نہیں ہوتا، ان کی پارٹی کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کواس صوبے سے دو چار ووٹ ہی ملیں گے جو نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ جیسے سندھ نے صدراتی امیدوار کو ووٹ دیئے ہی نہیں۔ ایم کیو ایم ووٹ کرتی ہے تو بھی بہت معمولی فرق پڑے گا۔
بہرحال وفاداریاں تبدیل کرنے کا معاملہ ہو یا گورنرراج کی تجویز، دونوں غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات ہیں۔ ایسا کرنے سے وقتی طور پر تو سیاسی فائدہ یا انا کی تسکین تو ہوسکتی ہے لیکن مجموعی طور پر بہت بڑا سیاسی نقصان ہوگا۔ جس کا ازالہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ نواز شریف کو کوئی ایسا اقدام کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ سندھ حساس صوبہ ہے جس کو احتیاط اور خبرداری سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔
تبصرے (14) بند ہیں