کورونا وائرس سے ہلاکتیں ایک ہزار سے تجاوز کر گئیں
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے چین کا سفر نہ کرنے کے باوجود وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو زیادہ بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں ہسپتال کا دورہ کیا جہاں انہوں نے حفاظتی ماسک پہن کر طبی عملے اور مریضوں سے گفتگو کی۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ووہان میں پھنسا پاکستانی طالبعلم والد کے جنازے میں شرکت تک نہ کرسکا
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ماہرین پر مشتمل ایک جدید ترین ٹیم چین پہنچ چکی ہے جہاں چین کو اس وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے جو اب تک 25 ملکوں کے 42 ہزار افراد کو متاثر کر چکا ہے۔
منگل کو اس وائرس کی زد میں آ کر مزید 108 افراد ہلاک ہو گئے جس کے بعد وائرس کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس وائرس سے پہلی ہلاکت 11 جنوری کو رپورٹ ہوئی تھی اور ایک ماہ کے اندر ہی یہ ہزار کا ہندسہ عبور کر گئی ہے اور تیزی سے پھیلاؤ کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، البتہ امید افزا پہلو یہ ہے کہ وائرس سے ہلاکتوں کی شرح 2.4 فیصد ہے۔
وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے چین نے مختلف شہروں میں کروڑوں لوگوں کو بند کردیا ہے جبکہ متعدد حکومتوں نے چین سے مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کر دی ہے اور دنیا کی متعدد نامور ایئرلائنز نے وائرس کے خطرے کے سبب چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی صدر کی کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی عیادت
تاہم اب اس وائرس کے پھیلاؤ کا نیا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ وائرس سے ہلاک ہونے والے برطانوی شہری نے کبھی چین کا سفر نہیں کیا تھا اور اس سے 11 افراد متاثر ہوئے اور اس خبر سے عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا بھر کے اہم ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
بیرون ملک وائرس کا شکار ہونے والے اکثر افراد چین کے صوبہ ہوبے کے شہر ووہان سے تعلق رکھتے تھے یا پھر وہ ووہان میں رہنے والے افراد کی وجہ سے اس وائرس کی زد میں آئے۔
برطانوی شہری کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے سنگاپور گئے تھے اور وہاں وہ وائرس کا شکار ہوئے اور فرانس میں چھٹیوں کے دوران یہ وائرس ان سے دیگر افراد میں منتقل ہوا جس کے بعد برطانیہ واپسی پر ان میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔
اس شخص سے وائرس کی زد میں آنے والے پانچ افراد فرانس، پانچ برطانیہ اور ایک اسپین میں زیر علاج ہیں تاہم اس نئے خطرے پر عالمی ادارہ صحت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے حوالے سے سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی
عالمی ادارہ صحت کی سربراہ تیدروس ادہانوم گھیبریس نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب چند افراد میں وائرس کی تشخیص بہت بڑے خطرے کا سبب بن سکتی ہے لیکن ابھی ہماری توجہ اس وائرس کی روک تھام پر مرکوز ہے، ہم تمام ملکوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بڑے خطرے سے نمٹنے کے موقع سے فوری فائدہ اٹھائیں۔
ادھر برطانوی حکومت نے ملک میں 8 افراد میں وائرس کی تصدیق کے بعد نوول کورونا وائرس کو بڑا اور سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اب جس شخص میں بھی وائرس کی علامات ظاہر ہوں گی تو مذکورہ شخص سے عوام کو خطرہ محسوس ہونے پر اس کو زبردستی کسی الگ جگہ پر رکھ دیا جائے گا۔
جاپان سے آنے والے پانی کے جہاز میں سوار افراد سے بھی کئی افراد میں وائرس منتقل ہوا اور ڈائمنڈ پرنسس جہاز میں سوار 135 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
مذکورہ جہاز کو ایک بالکل الگ تھلگ مقام پر بھیج دیا گیا ہے تاکہ دیگر افراد کو وائرس سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: عالمی ادارہ صحت کی ٹیم وجوہات جاننے کیلئے چین پہنچ گئی
عالمی ادارہ صحت کی چین پہنچنے والی اعلیٰ سطح کی ٹیم کی سربراہی بروس ایل ورڈ کر رہے ہیں جو اس سے قبل مغربی افریقہ میں 2016-2014 تک پھیلنے والے خطرناک ایبولا وائرس سے نمٹنے والی ٹیم کی بھی سربراہی کر چکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق مذکورہ ٹیم اس وائرس سے بچاؤ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے اس کی اصل وجہ، ذریعہ اور اس سے منسلک دیگر مسائل کو جاننے کی کوشش کرے گی۔
دوسری جانب چین نے وائرس کے بارے میں اطلاع ملنے کے باوجود کوتاہی برتنے والے دو اعلیٰ حکام کو نوکری سے برخاست کردیا ہے۔
اس وائرس کے پھیلاؤ کے سبب دارالحکومت ووہان سمیت صوبہ ہوبے کے ساڑھے 5 کروڑ سے زائد افراد محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: چین: کورونا وائرس سے اشیا کی فراہمی متاثر، مہنگائی میں اضافہ
صوبائی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور صوبائی ہیلتھ کمیشن کے ڈائریکٹر کو برطرف کردیا ہے۔
جنوری کے اوائل میں ہی وائرس کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود عوام سے معلومات چھپانے پر صوبہ ہوبے کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں اب تک اس وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ ہوبے میں ہی ہوئی ہیں۔