• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

ٹی ٹی پی رہنما کے ’فرار‘ ہونے پر پیپلزپارٹی کی حکومت پر سخت تنقید

شائع February 11, 2020
اراکین اسمبلی کی جانب سے معاملہ اٹھائے جانے کے وقت محض چند وزرا موجود تھے جنہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
اراکین اسمبلی کی جانب سے معاملہ اٹھائے جانے کے وقت محض چند وزرا موجود تھے جنہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ ’پراسرار طور پر فرار‘ ہونے پر حکومت سے وضاحت طلب کرلی۔

اراکین اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔

مذکورہ معاملہ رکنِ اسمبلی محسن داوڑ نے اٹھایا جبکہ قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی کے سید نوید قمر نے اس معاملے پر حکومت کی خاموشی پر سوال کیا۔

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دو اراکین اسمبلی کی جانب سے معاملہ اٹھائے جانے کے وقت محض چند وزرا موجود تھے جنہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔

یہ بھی پڑھیں: احسان اللہ احسان نے خود کو فورسز کے حوالے کردیا: پاک فوج

بعدازاں جب نماز مغرب کے وقفے کے بعد اجلاس ہوا تو اس کی سربراہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی عمران خٹک نے کی کیوں کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر دونوں ایوان میں موجود نہیں تھے۔

سید نوید قمر نے سوال کیا کہ ’آپ کس طرح احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کا معاملہ پس پشت ڈال سکتے ہیں؟ انہوں نے حکومت سے کہا کہ قوم کو بتایا جائے کہ کیا اسے ڈیل کے تحت رہا کیا گیا یا وہ سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں سے بچ نکلا‘۔

سید نوید قمر نے پوچھا کہ ’اگر امریکا سے بھی کوئی ڈیل ہوئی ہے تو ہمیں بتایا جائے‘۔

پی پی پی رکن اسمبلی نے یاد دہانی کروائی کہ حکومت نے اس حراست کی پر زور تشہیر کی تھی جس میں ’عالمی مجرم‘ کو پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

رہنما پیپلز پارٹی نے پوچھا کہ ’اگر ایف اے ٹی ایف اجلاس میں اس حوالے سے سوال کیا گیا تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ ہم کس طرح کی ریاست کر رہے ہیں؟‘

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کو رہا نہ کرنے اور تفتیش جاری رکھنے کا حکم

دوران گفتگو سید نوید قمر نے اس معاملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر احسان اللہ احسان ’اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی کے احاطے‘ سے فرار ہوسکتا ہے تو اس سے ’خطرے کی سطح‘ کھل کر سامنے آگئی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ (ملک میں) کیا محفوظ ہے؟ ساتھ ہی ایوان کے سربراہ سے مطالبہ کیا گیا کہ یا تو اس کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے یا اس معاملے کو متعلقہ کمیٹی میں بھجوایا جائے کیوں کہ حقائق جاننا پارلیمان کا استحقاق ہے۔

انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ معاملے کی حساس نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس ہوسکتا ہے۔

سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ’ایوان کا تقدس اس بات کا متقاضی ہے کہ پارلیمان کو بائی پاس نہ کیا جائے بلکہ اعتماد میں لیا جائے‘۔

قبل ازیں رکن اسمبلی محسن داوڑ نے ٹی ٹی پی رکن کے فرار ہونے کے حوالے سے حکومت کے سامنے 3 سوالات اٹھائے۔

یہ بھی پڑھیں: نجی ٹی وی کو احسان اللہ احسان کا انٹرویو نشر کرنے کی اجازت

محسن داوڑ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ معاملہ کچھ روز قبل سامنے آیا تھا لیکن حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’احسان اللہ احسان کو کس کیس میں گرفتار کیا گیا تھا؟ اسے کس عدالت میں پیش کیا گیا؟ اور کس جیل میں قید رکھا گیا تھا؟

رکن اسمبلی کی جانب سے مذکورہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے کے حوالے سے اجلاس کی سربراہی کرنے والے عمران خٹک نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے جواب آنے کے بعد ہی اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔

علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل کو ایوان میں تقریر کرنے کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کردی جس کے باعث اجلاس منگل کی شام تک ملتوی کردیا گیا، جس میں ملک کی معاشی صورتحال پر بات کی جائے گی۔

احسان اللہ احسان کا فرار ہونا حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے، بلاول

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہونا حکومت کی ’ناکامی اور نااہلی‘ کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آرمی پبلک اسکول اور ملالہ یوسف زئی پر حملے کے الزامات کا سامنا کرنے والا شخص کس طرح ملک سے فرار ہوسکتا ہے؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو جواب دینا پڑے گا، کیا یہ ملی بھگت تھی یا نااہلی تھی؟ دونوں صورتوں میں ملک کے لیے سنگین نتائج مرتب ہوں گے‘۔

اس معاملے کو ’ریاست کی ناکامی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کس طرح دہشت گردی سے متاثرہ افراد کا سامنا کرے گی۔

بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ ’سانحہ اے پی ایس کے لیے کوئی جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟ سانحے سے متاثر ہونے والے افراد اب تک عدالتی کمیشن کا مطالبہ کررہے ہیں‘۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 'ہم کس طرح عالمی برادری کو بتائیں گے کہ ہم دہشت گردی سے لڑ رہے ہیں جبکہ ملک کا سب سے بڑا دہشت گرد ہی ملک سے فرار ہوگیا‘۔


یہ خبر 11 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024