وفاقی وزیر کا مہنگائی کے حوالے سے پیشگی اقدامات نہ کرنے کا اعتراف
وزیر معاشی امور حماد اظہر کا کہنا ہے کہ اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں مہنگائی کے حوالے سے پیشگی اقدامات اٹھانے چاہیئں تھے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ 'یہ حقیقت ہے کہ ہماری حکومت کے پہلے سال میں مہنگائی کی اوسط شرح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار سے کم تھی لیکن (ن) لیگ کے مقابلے میں دوسرے سال میں زیادہ ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں ملکی معیشت کو درست کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑے جن میں روپے کی قدر میں کمی، دوسرا ہمیں گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا اور ان اقدامات سے شرح سود میں اضافہ ہوا، اب مہنگائی کھانے پینے کی اشیا میں ہوئی ہے جس پر جلد قابو پالیں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'گندم کی برآمد کی وجہ سے آٹے کی قیمتیں نہیں بڑھیں بلکہ پیداوار میں کمی کی وجہ سے بڑھیں، جولائی میں ہم نے گندم کی برآمد پر پابندی لگائی جس کے بعد پاسکو نے اپنے گوداموں سے گندم جاری کرنا شروع کردی۔'
حماد اظہر نے کہا کہ 'میں اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اس معاملے کے حوالے سے پیشگی اقدامات اٹھانے چاہیے تھے، تاہم ہم سیاسی حکومت ہیں اور ہمیں مہنگائی کا احساس ہے جبکہ ہم ایکشن لیں گے اور اجناس کی قیمتیں کم ہوں گی۔'
یہ بھی پڑھیں: عوام کو ریلیف کی فراہمی کیلئے ہر حد تک جائیں گے، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے جس وقت ملکی معیشت سنبھالی وہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھی، ایشیائی ترقیاتی بینک نے بجٹری سپورٹ معطل کردی تھی، آئی ایم ایف کی آخری رپورٹ شرمندگی کا باعث بنی، موڈیز نے رینکنگ منفی کردی، ہمارے بروقت فیصلوں کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اتنی تیزی سے نیچے آیا، زرمبادلہ کے ذخائر میں 50 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے حکومت سنبھالنے کے وقت ہی کہا تھا کہ معیشت جس گڑھے میں اسے نکالنے کے لیے دو سال لگیں گے اور سخت فیصلے کرنے پڑے گے۔'
وفاقی وزیر نے غربت میں اضافے کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ رپورٹس کسی سروے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کسی مخصوص فارمولے کے تحت بنائی گئی ہیں، عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں غربت میں کمی آئی ہے، جبکہ اس حوالے سے اس وقت ہمارے پاس اپنا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔'
انہوں نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'فی الحال ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔'
حماد اظہر نے ایک سال کے دوران ملکی قرضوں 11 ہزار ارب روپے اضافے سے متعلق کہا کہ 'یہ قرضے نہیں ہیں، ان میں سے ساڑھے 4 ہزار ارب روپے کی وہ رقم ہے جس میں ایک روپے قرضہ نہیں بلکہ پُرانے قرضوں کا روپوں میں کتابوں میں جو حجم ہے وہ بڑھا ہے۔'
مزید پڑھیں: وزیراعظم کا آٹے، چینی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کو سزا دینے کا فیصلہ
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ادارہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 12 سال کی بلند ترین سطح 14.6 فیصد پر آگئی جبکہ گزشتہ سال دسمبر میں یہ 12.6 فیصد تھی۔
اس حوالے سے جاری ڈیٹا میں اشیائے خورونوش خاص طور پر گندم اور آٹے، دالوں، چینی، گڑ اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کو جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔
ساتھ ہی مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق مہنگائی گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 1.97 فیصد بڑھی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 08-2007 میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح 17 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
ادارے کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ بالخصوص گندم، آٹا، دالیں، چینی، گڑ اور کھانے کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنی۔
شہری علاقوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں جنوری کے مہینے میں سالانہ بنیادوں پر 19.5 فیصد جبکہ ماہانہ حساب سے 2.7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ یہ دیہی علاقوں میں بالترتیب 23.8 فیصد اور 3.4 فیصد بڑھی۔