• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پولیو کیسز: بابر بن عطا نے مجرمانہ غفلت کی ہے تو انہیں سزا دی جائے، اعظم سواتی

شائع February 10, 2020 اپ ڈیٹ July 17, 2020
اعظم سواتی نے تحقیقات کی حمایت کردی—فائل/فوٹو: ڈٓان نیوز
اعظم سواتی نے تحقیقات کی حمایت کردی—فائل/فوٹو: ڈٓان نیوز

سینیٹ اجلاس میں ملک میں پولیو کیسز کے اضافے پر اپوزیشن نے فوکل پرسن بابر بن عطا کو گرفتار کرکے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کردیا جبکہ وفاقی وزیر اعظم سواتی نے تحقیقات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی غفلت کی ہے تو انہیں سزا دی جائے۔

اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینٹر قراۃ العین مری نے کہا کہ حکومت نے ایک سوشل میڈیا افسر بابر بن عطا کو پولیو سیل کا فوکل پرسن بنا دیا جبکہ وزارت نے لکھا کہ بابر بن عطا کو ہٹانے کی اجازت دی جائے، کیونکہ وہ کوئی کام نہیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بابر بن عطا کو ہٹانے کی درخواست وزیر اعظم نے مسترد کر دی، بابر بن عطا پولیو کا وہ وائرس واپس لے آئے جو دنیا سے ختم ہو چکا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بابر بن عطا جیل میں کیوں نہیں ہیں اور وہ کہاں ہیں، انہوں نے ہمارے بچوں کی جان کو خطرے میں ڈالا، ان پر مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے انسداد پولیو بابر بن عطا مستعفی

سینیٹ میں اپوزیشن نے بابر بن عطا کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا۔

سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ صوابی میں دو ورکرز کو مارا گیا، لوگ بچوں کو پولیو ورکرز سے چھپا لیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے اس پر سوچنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کو جمعے کے خطبے میں بتانا چاہیے کہ پولیو کے قطرے میں بانجھ پن کے حوالے سے ہرگز کوئی چیز شامل نہیں ہے۔

سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ میں پولیو کیسز سامنے آتے ہیں، ان تینوں اضلاع کے ڈسٹرکٹ افسران اس میں ملوث ہیں کہ پولیو ختم نہ ہو۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ان افسران کے خلاف کارروائی کرے اور پولیو ورکرز کی سیکورٹی کا بہترین انتظام ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ پولیو اس لیے ختم نہیں ہو رہا کیونکہ اس کی وجہ سے کروڑوں ڈالرز آ رہے ہیں، اگر پولیو ختم ہو گیا تو یہ ڈالرز نہیں آئیں گے، اس طرح کی باتوں سے اداروں کی بدنامی ہوتی ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے تجویز دی کہ پولیو کے قطرے نہ پلانے پر متعلقہ شہری کا شناختی کارڈ بلاک ہونا چاہیے اور پولیو قطروں کے مخالف افراد کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج بھی نہیں ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پولیو کیسز میں دوبارہ اضافے کی وجہ مجرمانہ غفلت ہے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا پاکستان کی حکومت نے پولیو کو سیاسی فٹ بال بنایا ہے۔

مزید پڑھیں:بلوچستان میں سال کا پہلا، خیبرپختونخوا میں تیسرا پولیو کیس سامنے آگیا

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 3 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے، راولپنڈی میں درجنوں بچوں کو زائدالمیعاد پولیو کے قطرے پلائے گئے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے مطالبہ کیا کہ بابر بن عطا کو گرفتار کرکے غیر جانب دارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں ابھی تک پولیو وائرس پر قابو نہیں پا سکے حالانکہ ڈبلیو ایچ او کی سخت ہدایات ہم پر لاگو ہیں، جب ہم حج عمرہ کرنے جاتے ہیں تو ہمیں علیحدہ کیا جاتا ہے۔

اعظم سواتی نے کہا کہ ذاتی طور پر علم نہیں کہ بابر بن عطا کا کیا قصور ہے، لیکن اگر وہ اس میں ملوث ہیں اور انہوں نے مجرمانہ غفلت کی ہے تو انہیں سزا دی جائے، حکومت کا کوئی فرد اس گھناؤنے فعل کا شریک نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سفارش کرتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ، بابر بن عطا کے معاملے کو تحقیقات کے لیے قائمہ کمیٹی کے سپرد کریں اور کمیٹی بابر بن عطا کو طلب کرے، اگر کسی نے اتنا بڑا جرم کیا ہے تو وہ پاکستان کی سرزمین سے باہر نہ جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی نواسیوں اور پوتیوں کو اپنے ہاتھ سے پولیو کے قطرے پلائے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے انسداد پولیو مہم بابر بن عطا نے 18 اکتوبر 2019 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیے گئے استعفے میں بابر بن عطا نے کہا تھا کہ ان کا ماننا ہے کو جو مشن انہیں دیا گیا تھا وہ انہوں نے مکمل کیا اور وہ اس لیے استعفیٰ دے رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے والد کو وقت نہیں دے پارہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں استعفیٰ جمع کروانا چاہتا ہوں کیونکہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں اپنے بیمار والد کی صحت پر توجہ نہیں دے پارہا اور میں اپنی باقی زندگی اس بات پر افسوس کرکے نہیں گزار سکتا کہ میں نے اپنے والدین کا خیال اس وقت نہیں رکھا جب انہیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی‘۔

دوران حراست تشدد پر 10 لاکھ جرمانہ اور سزا دی جائے

پی پی پی سینیٹر شیری رحمٰن نے دوران حراست تشدد اور ہلاکت کے تدارک اور کنٹرول کا بل سینیٹ میں پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں میں پولیس حراست میں تشدد سے اموات کے کیسز سامنے آرہے ہیں، پولیس حراست کے دوران وحشیانہ تشدد ہو رہا ہے، پولیس کے نجی ٹارچر سیلز سامنے آئے ہیں، دوران حراست تشدد پر سزائیں دی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ دوران حراست تشدد پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ اور 3 سے 10 سال تک سزا دی جائے، حراست کے دوران تشدد کی تحقیقاتی رپورٹ 14 روز میں آنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:پنجاب میں پولیس تشدد سے ہلاکت کا تیسرا واقعہ، مقدمے میں 6 اہلکار نامزد

شیری رحمٰن نے کہا کہ پولیس کی حراست کے دوران 52 اموات کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

اس موقع پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ زینب الرٹ بل سمیت دو حکومتی بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے پاس موجود ہیں، دوران حراست تشدد کے بل پر کوئی اعتراض نہیں اور اس حوالے سے حکومتی بل وزارت قانون میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے جس کے بعد بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔

سینیٹ میں پیش کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ دوران حراست ملزم پر تشدد پر 3 سے 10 سال سزا ہو گی، دوران حراست تشدد پر 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، تشدد سے نہ روکنے پر سرکاری ملازم کو 3 سال تک سزا اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ دوران حراست تشدد سے ہلاکت پر عمر قید اور 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، دوران حراست ریپ کرنے پر عمر قید اور 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ دوران حراست موت یا جنسی تشدد کو نہ روکنے کے ذمہ دار سرکاری ملازم کو 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا اور ڈیوٹی پر موجود ملازم پر لازم ہوگا کہ وہ تشدد روکے۔

مزید پڑھیں:دوران حراست عامر مسیح کی ہلاکت: پوسٹ مارٹم میں 'تشدد' کی تصدیق

مزید کہا گیا ہے کہ ملزم کے بارے میں گواہی حاصل کرنے کے لیے کسی کو نظر بند نہیں کیا جائے گا، کوئی مرد کسی خاتون کو حراست میں نہیں رکھ سکے گا، خاتون صرف خاموش سرکاری ملازم کی حراست میں رہے گی۔

تشدد کے ذریعے حاصل کیا گیا بیان منظور نہیں ہو گا اور گواہی بھی تسلیم نہیں کی جائے گی جبکہ تشدد کی شکایت کرنے والے شخص کا بیان عدالت ریکارڈ کرے گی اور جس شخص پر تشدد ہوا اس کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کرایا جائے۔

بل میں کہا گیا کہ ادارے تشدد کی تحقیقات کرکے 15 روز کے اندر رپورٹ ارسال کریں گے، عدالت دوران حراست تشدد کے کیسز کو ملتوی نہیں کرے گی، دوران حراست تشدد کی بدنیتی پر شکایت کرنے والے کو ایک سال تک قید، 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

بل میں تجویز دی گئی ہے کہ دوران حراست تشدد کے کیس پر سزا کے خلاف اپیل 30 دن میں دائر ہوگی۔

احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کی تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار ہونے کی تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس نے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے بچوں کو قتل کیا وہ ملک سے چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جواب دینا حکومت کا کام ہے کسی اور کا نہیں، بتایا جائے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہیں اور وہ کیسے گیا، ہمیں اس آپریشن کی تفصیلات بتائیں جس میں احسان اللہ احسان گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ احسان اللہ احسان قاتل ہے، وہ کتنے آرام سے رہا اس ملک میں جس کے بچوں کو اس نے مارا، اے پی ایس والے لواحقین ٹھیک کہتے تھے کہ یہ انہوں نے خود کرایا ہے، حکومت کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ کلبھوشن چلا گیا ہے، تب لگا تھا وہ ایسے ہی کہہ رہے ہیں لیکن اب ان کا کہا درست لگتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کلبھوشن کو لا کر دکھائیں، اسے ٹی وی پر دکھائیں وہ کہاں ہے۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ حکومت کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں، لوگوں کی بیٹیوں کو باپ کی عیادت کے لیے جانے سے نہ روکیں، آپ اس لیے ناکام ہوئے ہیں کیونکہ آپ غیر ضروری کاموں میں لگے ہیں۔

سینیٹ میں بحث کے دوران انہوں نے کہا کہ تیز گام حادثے میں ذمہ دار افراد کو کوئی سزا نہیں ملی، جاں بحق افراد کے لواحقین کو تاحال معاوضہ نہیں ملا جبکہ 13 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔

مشاہداللہ خان نے کہا کہ اسحٰق ڈار اس ایوان کے رکن ہیں، انہوں نے ملک کی خدمت کی ہے لیکن ان کے خلاف ایک جھوٹا کیس بنایا گیا ہے۔

اسحٰق ڈار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فوج کا بجٹ 550 ارب روپے تھا جس کو اسحٰق ڈار نے 11 سو ارب روپے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں کہ اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ بنائیں گے، ان کے گھر سے سامان چوری کیا گیا، اس سے قبل نواز شریف کے گھر کو اولڈ ہاؤس بنایا گیا تھا اور ایسا کرنے والا شخص بھی مفرور ہے۔

اپوزیشن جماعت کے سینیٹر نے کہا کہ پارلیمنٹ حملہ کیس میں عمران خان بھی مفرور تھے لیکن ہم نے تو بنی گالہ کو پناہ گاہ نہیں بنایا، پرویز مشرف مفرور ہے، اس کے گھر کو کیوں پناہ گاہ نہیں بنایا گیا، یہ بڑا ظلم ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔

اس موقع پر اپوزیشن نے اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے معاملے پر ایوان سے واک آوٹ کیا۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق نے کہا کہ اسحٰق ڈار سینیٹ کے رکن ہیں اور ان کے گھر کے حوالے سے چیئرمین سینیٹ رولنگ دیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے سے آنے والا پانی پاکستان میں نہیں جانے دوں گا، اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور کسی حکومتی رکن نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اے پی ایس کا قاتل احسان اللہ احسان ترکی میں عیش و عشرت کر رہا ہے اور فواد چوہدری کہتے ہیں کہ سرعام پھانسی ظالمانہ عمل ہے، اسلام کی سزاؤں کو ظالمانہ کہنے والے خود ظالم ہیں، ان کی اپنی بات ہو تو سرعام صحافیوں کو تھپڑ مارتے ہیں۔

کوروناوائرس کے حوالے سے چین سے اظہار یک جہتی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے سینیٹ میں کورونا وائرس کے حوالے سے چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ چینی حکام کورونا وائرس کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، ہم چینی حکومت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے شہریوں کی طرح پاکستانی طلبہ کا خیال رکھا۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ چینی قیادت کو کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے کارروائی کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ چین کورونا وائرس کو ختم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چین کے صدر شی جن پنگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ہم کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے چینی حکام کے ایکشن کی حمایت کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کا معاملہ

وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ حکومت کا انسانی حقوق کمیشن کو جان بوجھ کر غیر فعال کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین کے عہدے کے لیے 25 درخواستیں موصول ہوئی ہیں، پنجاب اور سندھ کے اراکین کے لیے 26,26 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

اعظم سواتی نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن کے خیبر پختونخوا کے ممبر کے لیے 30، اسلام آباد کے لیے 11، بلوچستان سے 22 اور اقلیتی ممبر کے لیے 14 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024