بھارت: عدالت کا شاہین باغ کے مظاہرین کو فوری ہٹانے کا فیصلہ دینے سے انکار
بھارتی سپریم کورٹ نے دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دینے سے انکار کردیا۔
تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ لوگوں کو عوامی شاہراہ کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بھارتی نشریاتی ادارے ہندوستان ٹائم کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سنجے کشن کاؤل نے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ 50 دن تک انتظار کرسکتے ہیں تو مزید ایک ہفتہ بھی انتظار کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: دہلی کے انتخابات میں مودی کی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا، ایگزٹ پول نتیجہ
ساتھ ہی عدالت نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 17 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔
بینچ میں موجود ایک اور جج جسٹس کے ایم جوزف کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کو سنے بغیر دونوں درخواست کو نہیں سن سکتے۔
واضح رہے کہ یہ درخواستیں وکیل امیت شاہنی اور بی جے پی دہلی کے رہنما نند کشور گارگ نے دائر کی تھیں۔
تاہم ان کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ وہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے جو ایک ہی جگہ پر غیر معینہ مدت تک جاری رہے۔
بینچ نے کہا کہ احتجاج جاری رہ سکتا ہے لیکن یہ اس مقام پر ہونا چاہیے 'جو مظاہرین کے لیے مختص ہیں'۔
جسٹس سنجے کاؤل نے کہا کہ آپ عوامی سڑک کو غیر معینہ مدت تک کے لیے بند نہیں کرسکتے، اگر ہر کوئی ہر جگہ احتجاج کرنا شروع کردے تو پھر کیا ہوگا'۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج میں دہلی کا شاہین باغ ایک مرکزی مقام بنا ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں مظاہرین موجود ہیں۔
اس احتجاج کے خلاف دائر درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ شاہین باغ پر سڑک کی بندش سے عوام کو شخت مشکلات کا سامنا ہے اور سفر کے دوران ان کا قیمتی وقت، توانائی اور ایندھن ضائع ہورہا ہے۔
شہریت قانون اور اس کے خلاف احتجاج
واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا تھا کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف امریکا کے 30 شہروں میں مظاہرے
مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس قانون پر کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مرکز اس کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔