شاہد خاقان، احسن اقبال کی درخواست ضمانت پر جواب جمع کروانے کیلئے نیب کو مہلت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس اور نارووال اسپورٹس سٹی منصوبہ کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی درخواست ضمانت پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو جواب داخل کروانے کے لیے مہلت دے دی۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی ڈویژن بینچ نے دونوں کیسز میں ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
اس دوران احسن اقبال کی جانب سے ان کے وکیل طارق جہانگیری جبکہ شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ خان پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس
سماعت کے دوران احسن اقبال کے وکیل کی جانب سے پیش کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ احسن اقبال پر مالیاتی کرپشن کا کوئی الزام نہیں جبکہ ابھی تک نیب کی جانب سے کوئی ریفرنس بھی دائر نہیں کیا گیا۔
مذکورہ درخواست کے مطابق احسن اقبال نے کبھی نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار نہیں کیا لیکن 23 دسمبر کو شامل تفتیش ہونے پر گرفتار کرلیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان پر الزام ہے کہ نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس صوبائی معاملہ تھا مگر وفاق کے فنڈز سے بنایا گیا۔
درخواست میں وفاق کو بذریعہ وزارت قانون اور ساتھ ہی چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔
احسن اقبال کی درخواست میں کہا گیا کہ منصوبے کی تمام متعلقہ فورمز سے منظوری لی گئی، صوبائی دائرہ کار میں آنے والے پراجیکٹ کو وفاق کی طرف سے فنڈنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں، نیب کی جانب سے عائد کردہ تمام الزامات غلط، بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔
عدالت میں سامنے پیش کردہ اس درخواست میں کہا گیا کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کا سیکریٹری جنرل ہونے کے باعث سیاسی انتقام کے طور پر گرفتار کیا گیا، لہٰذا کیس کا ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی جائے۔
ساتھ ہی بیرسٹر ظفراللہ نے شاہد خاقان عباسی کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے نیب کی سیاسی انجینئرنگ کی بات کی جبکہ موجودہ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ نیب استحصالی ادارہ بن چکا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کی درخواست کے مطابق نیب ان کے خلاف بادی النظر میں کوئی بھی کیس بنانے میں ناکام رہا جبکہ نہ نیب قانون اور نہ ہی کسی اور قانون کے تحت مجھ پر کوئی کیس بنتا ہے۔
انہوں نے درخواست میں کہا کہ نہ میں نے کوئی جرم کیا، نہ ہی جرم میں کسی کی معاونت کی، نیب کی جانب سے عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا جس کی ابھی تک کاپی بھی نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھیں: ایل این جی ریفرنس: شاہد خاقان عباسی کے جوڈیشل ریمانڈ میں21 فروری تک توسیع
مذکورہ درخواست کے مطابق 18 جولائی کو گرفتاری کے بعد 10 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں رہا، 11 اکتوبر کو جیل بھجوا دیا گیا، لہٰذا نیب ریفرنس میں ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت منظور کی جائے۔
بیرسٹر ظفر اللہ خان نے بتایا کہ ان کے مؤکل شاہد خاقان عباسی کو حراست میں 201 دن ہوگئے ہیں۔
تاہم دونوں درخواستوں پر جواب کے لیے نیب کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مہلت طلب کی گئی، جس پر عدالت نے نیب کو مہلت دیتے ہوئے سماعت 13 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایل این جی ٹھیکوں میں مبینہ طور پر بے ضابطگیوں اور احسن اقبال نارووال اسپورٹس سٹی کیس میں گرفتار ہیں۔
مزید پڑھیں: نارووال اسپورٹس سٹی کیس: احسن اقبال کا 13 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
خیال رہے کہ یکم فروری کو شاہد خاقان عباسی جبکہ احسن اقبال نے 4 روز قبل ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو قومی احتساب بیورو نے مائع قدرتی گیس کیس میں گرفتار کیا تھا۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت قوائد کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کے لیے 15 سال کا ٹھیکہ دیا، یہ ٹھیکہ اس وقت دیا گیا تھا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شاہد خاقان عباسی وزیر پیٹرولیم تھے۔
بعدازاں 3 دسمبر 2019 کو نیب نے احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین سعید احمد خان سمیت 10 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔
دوسری جانب قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو نارووال کے اسپورٹس سٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔
نیب کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ نیب راولپنڈی نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس اسکینڈل میں رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ احسن اقبال پر نارووال اسپورٹس سٹی منصوبے کے لیے وفاقی حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے فنڈز استعمال کرنے کا الزام ہے۔