کینسر سے ڈی این اے میں تبدیلیاں برسوں قبل ہونے کا انکشاف
کینسر کے نتیجے میں جینیاتی نظام میں ہونے والے مسائل اکثر اوقات کئی برس بلکہ دہائیوں قبل ہی ہونے لگتی ہیں۔
یہ بات کینسر کے حوالے سے ہونے والی ایک بین الاقوامی تحقیق میں سامنے آئی۔
ویلکم سانگر انسٹیٹوٹ، ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول سنگاپور، کیلیفورنیا یونیورسٹی، میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دنیا بھر میں کینسر کے نتیجے میں ڈی این اے کو نقصان پہنچنے کے عمل کے جینیاتی فنگرپرنٹس کا انکشاف کیا گیا۔
سائنسدانوں نے اب تک کے سب سے تفصیلی جینیاتی فنگرپرنٹس کو مرتب کیا، جس سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ ہر قسم کا کینسر کس طرح جسم میں بنتا ہے۔
اس سے سائنسدانوں کو نامعلوم کیمیکلز، حیاتیاتی گزرگاہوں اور کینسر کا باعث بننے والے ماحولیاتی عناصر کی تلاش میں بھی مدد ملے گی۔
جریدے نیچر میں شائع تحقیق گلوبل پان کینسر پراجیکٹ کا حصہ ہے جس کا مقصد کینسر کے اسباب کو سمجھنے اور روک تھام کی حکمت عملیوں کو تشکیل دینے میں مدد فراہم کرنا ہے جبکہ تشخیص اور طریقہ علاج کی تشکیل کو بھی ممکن بنانا ہے۔
اس پراجیکٹ سے منسلک 22 مزید تحقیقی رپورٹس کو بھی جریدے نیچر میں شائع کیا گیا جو کہ دنیا کے 37 ممالک میں ہوئی اور 38 مختلف اقسام کی رسولیوں میں 26 سو سے زائد جینومز کا تجزیہ کیا گیا۔
کینسر سے جینیاتی تبدیلیاں آتی ہیں اور ایک خلیے کا ڈی این اے بدل جاتا ہے جس سے وہ بے قابو انداز سے ایک سے دو اور سیکڑوں کی تعداد میں پھیل جاتا ہے۔
ماضی کی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کینسر کے معلوم اسباب جیسے سورج کی مضر شعاعیں اور تمباکو نوشی ڈی این اے میں تباہی کے مخصوص فنگرپرنٹ بناتی ہیں ، جن سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کینسر کیسے جسم میں پھیلا، کس حد تک پھیل سکتا ہے اور کیسے اس کی روک تھام مکن ہے۔
تاہم ماضی میں تحقیقی رپورٹس اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تھی جو تمام ممکنہ جینیاتی اشاروں کو شناخت کرسکتیں۔
اس نئی تحقیق میں نئے اشاروں کی شناخت کی گئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے اور انہیں ایک بڑے ڈیٹابیس کا حصہ بنادیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ کچھ اقسام کے ڈی این اے فنگرپرنٹس عکاسی کرتے ہیں کہ کینسر کس طرح ادویات پر ردعمل ظاہ کرتا ہے، اس حوالے سے مزید تحقیق سے کچھ اقسام کے کینسر کی تشخیص اور ان کے لیے کونسی ادویات موثر ثابت ہوسکتی ہیں، کی شناخت میں مدد مل سکے گی۔
انہوں نے بتایا کہ جینومز کی بڑی تعداد میں دستیابی سے ہمیں جدید تجزیاتی طریقہ کار کے اطلاق میں مدد مل سکے گی اور مزید جینیاتی خرابیوں کے بارے میں تحقیق کو توسیع دی جاسکے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس نئے ذخیرے سے ڈی این اے کے نقصان یا مرمت کے حیاتیاتی اور کیمیائی تجزیے کی زیادہ بہتر تصویر مل سکے گی جس سے طبی ماہرین جینوم پر کینسر کے اثرات کا تعین کرسکیں گے۔