مولانا عبدالعزیز جامعہ حفصہ کیلئے زمین کے وعدے پر لال مسجد چھوڑنے پر تیار
اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے 20 کینال زمین الاٹ کرنے کے وعدے پر مولانا عبدالعزیز لال مسجد چھوڑنے پر رضامند ہوگئے۔
مولانا عبدالعزیز انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد متوقع طور پر منگل (11 فروری) کو لال مسجد چھوڑ دیں گے جبکہ اسلام آباد کے سیکٹرایچ میں الیون میں جامعہ حفصہ میں داخل ہونے والی طالبات بھی واپس جانا شروع ہوگئی ہیں۔
انتظامیہ اور مولانا عبدالعزیر کے درمیان مذاکرات کے بعد پولیس کی جانب سے گھیراؤ بھی ختم کرلیا گیا۔
مولانا عبدالعزیز نے مذاکرات کے دوران دعویٰ کیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف ‘تحریک’ وفاقی دارالحکومت میں مساجد کو گرائے جانے پر شروع کی گئی تھی اور زور دیتے ہوئے کہا ہے اسی طرح کے واقعات دوبارہ شروع کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:لال مسجد کا تنازع تیسرے روز بھی برقرار
اسلام آباد کی انتظامیہ نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے خدشات کو متعلقہ حکام تک پہپنچایا جائے گا اور ان کے مطالبات کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پورے کیے جائیں گے۔
قبل ازیں کیپٹل ایڈمنسٹریشن کے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کے مطالبے کو پورا نہیں کیاجاسکتا کیونکہ وہ دوبارہ مسجد کا خطیب بننا چاہتے ہیں اور جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے زمین کے ساتھ 25 کروڑ روپے اور بچوں کی لائبریری کے پرانے پلاٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد کی انتظامیہ اور لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبدالعزیز کے درمیان ہونے والے بیک ڈور مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے اور اس حوالے سے وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے معاملے کو سنجیدہ قرار دیا تھا۔
تنازع کے خاتمے کے لیے کالعدم اہل سنت والجماعت کی جانب سے اپنا کردار ادا کرنے اور سرکاری مسجد کے باہر ملاقات کے لیے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا گیا تھا جبکہ سیکیورٹی حکام نے اسلام آباد کی انتظامیہ سے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ملاقات کی۔
مزید پڑھیں:مولانا عبدالعزیز لال مسجد پر قابض، صورتحال کشیدہ
تاہم مولانا عبدالعزیز کے حامیوں اور انتظامیہ کی جانب سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے باعث اس موقع پر دونوں ہی فریقین پیچھے ہٹ گئے۔
یاد رہے کہ مولانا عبدالعزیز 2 ہفتے قبل سرکاری مسجد میں واپس آئے تھے اور مسجد کے خطیب ہونے کا اعلان دہرایا تھا، صورت حال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب سیکڑوں طالبات نے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 میں قائم جامعہ حفصہ میں داخل ہو کر اس کی سیل توڑ دی تھی۔
اس حوالے سے جامعہ محمدیہ کے پرنسپل اور وفاق المدارس العربیہ اسلام آباد کے سربراہ مولانا ظہور علوی نے علما کے وفد سے ملنے سے انکار کیا جبکہ ان کے بیٹے مولانا تنویر علوی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ‘یہ وفاق کی واضح پالیسی ہے کہ طلبہ صرف تعلیم حاصل کریں گے اور کسی بھی قسم کی سیاست اور دیگر اقدامات میں حصہ نہیں لیں گے’۔
ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ‘سنائی جانے والی نظمیں جارحانہ اور اشتعال انگیز نہیں اگر ان کا موازنہ دھرنے میں سنائی جانے والی موسیقی اور رقص سے کیا جائے۔
انہوں نے موجودہ حکومت کا سابق آمر پرویز مشرف سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہمیشہ ایک راستہ رہتا ہے، لیکن یہ حکومت پرویز مشرف کی حکومت سے زیادہ نادان اور ظالم ہے'۔
مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ان کا مطالبہ سپریم کورٹ کے 2007 کے فیصلے کو نافذ کرنا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ لال مسجد نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی وہ طالبات، جو جامعہ حفصہ میں داخل ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں اہل سنت والجماعت کا وفد اپنے اسلام آباد کے صدر حفیظ نظیر کے ساتھ لال مسجد آیا اور مسجد کے باہر تعینات افسران سے ملاقات کی، وفد نے اسسٹنٹ کمشنر کو اپنی حمایت اور معاملے کے پُر امن حل کی یقین دہانی کروائی تھی۔