• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ٹی ٹی پی نے افغانستان میں اہم رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی

شائع February 9, 2020
واضح نہیں ہوسکا کہ شیخ خالد حقانی کس مشن پر تھے — فائل فوٹو: اے پی
واضح نہیں ہوسکا کہ شیخ خالد حقانی کس مشن پر تھے — فائل فوٹو: اے پی

پشاور: کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں اہم رہنما اور گروہ کا ایک اور رکن ہلاک ہوگیا۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی نگرانی کرنے والی سائٹ پر شائع بیان میں تحریک طالبان پاکستان نے کہا کہ شیخ خالد حقانی، جو گروہ کی مشاورتی کونسل کے رکن اور نائب سرابرہ تھے، 31 جنوری کو ہلاک ہوگئے۔

ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ 'شیخ خالد حقانی، امریکی غلاموں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے'۔

مزید پڑھیں: شمالی افغانستان میں طالبان کا حملہ، 14افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک

بیان میں کہا گیا کہ شیخ خالد حقانی کے قریبی ساتھی قاری سیف اللہ بھی افغانستان میں ایک 'مشن' کے دوران ہونے والی جھڑپ میں ہلاک ہوئے۔

تاہم افغان سیکیورٹی فورسز نے مذکورہ معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور فوری طور یہ واضح نہیں ہوسکا کہ شیخ خالد حقانی کس مشن پر تھے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 'ٹی ٹی پی، خالد حقانی کا مشن آگے بڑھانے کا عزم کرتی ہے ہم ماضی میں بھی اپنے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ لیتے رہے ہیں اور ہم بدلہ لیں گے'۔

واضح رہے کہ پاکستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کررہا ہے جس میں 2007 میں ٹی ٹی پی کی پرتشدد مہم کے آغاز کے بعد انتہا پسند حملوں میں ہزاروں شہری اور سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کے نئے دور کا آغاز

تاہم سال 2019 میں انتہاپسندی پر مبنی تشدد میں ڈرامائی طور پر کمی آئی اور 2007 کے بعد اموات گزشتہ سال اموات کم ہوئیں۔

تجزیہ کار اس کمی کو شمالی وزیرستان اور خیبر کے قبائلی علاقوں طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں اور کراچی میں آپریشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

اس سے قبل سال 2018 میں ٹی ٹی پی، امریکی حملے میں افغانستان کے رہنما ملا فضل اللہ ہلاک ہوگئے تھے۔


یہ خبر 9 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024