• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی، قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور

شائع February 7, 2020 اپ ڈیٹ February 8, 2020
وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے قرارداد پیش کی
— فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے قرارداد پیش کی — فائل فوٹو: اے پی پی

قومی اسمبلی میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افراد کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذکورہ قرارداد پیش کی۔

قرارداد میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اجلاس میں اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کی گئی۔

اس موقع پر راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق سرعام پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

مزید پڑھیں: زینب الرٹ بل قومی اسمبلی سے منظور

انہوں نے کہا کہ ایک اور کیس میں بھی سرِعام پھانسی کا فیصلہ آیا تھا اس کا کیا ہوا، سزائیں بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے۔

تاہم پیپلزپارٹی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں مذکورہ قرارداد کو کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی جماعت کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کی سخت مذمت کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے لکھا کہ یہ ظالمانہ تہذیب کے طریقوں میں سے ایک اور سنگین فعل ہے، معاشرے متوازن طریقے سے چلتے ہیں۔

فواد چوہدری نے مزید لکھا کہ جرائم کا جواب ظلم نہیں ہوتا یہ انتہاپسندی کا ایک اور اظہار ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے واضح کیا کہ قرارداد حکومت کی جانب سے نہیں پیش کی گئی بلکہ یہ ایک انفرادی عمل تھا۔

ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ہم میں سے اکثر اس کی مخالفت کرتے ہیں، وزارت انسانی حقوق اس کی سخت مخالفت کرتی ہے۔

شیریں مزاری نے مزید کہا کہ میں ایک اجلاس میں مصروف تھی اور اس وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرسکی۔

اس سے قبل رواں برس 10 جنوری کو ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد قومی اسمبلی میں زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔

اگست 2019 میں پارلیمانی کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو 'سخت ترین' سزا دی جانی چاہیے۔

چند کے علاوہ کمیٹی کے تمام اراکین نے اس جرم کے لیے عمر قید کی سزا کی مخالفت کی تھی جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ اس جرم پر سزائے موت ہی ہونی چاہیے۔

بل کے مطابق 'بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا'، تاہم بل کے مطابق یہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔

بھارتی زائرین کو بغیر پاسپورٹ کرتارپور آنے کی اجازت نہیں، وزارت داخلہ

علاوہ ازیں قومی اسمبلی اجلاس کے وقفہ سوالات میں وزارت داخلہ کی جانب سے سوالات کے تحریری جوابات جمع کروائے گئے۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ کسی بھارتی زائرین کو بغیر پاسپورٹ کرتارپور آنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

انہوں نے کہا کہ بغیر پاسپورٹ زائرین کو آنے کی اجازت دینے کی ایک تجویز زیرِ غور ہے جس پر وزارت خارجہ سے مفصل رائے لی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کا اغوا، ریپ روکنے کیلئے 'زینب الرٹ بل' کا ابتدائی مسودہ منظور

وزارت داخلہ نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت بھارتی زائرین پاسپورٹ دکھا کر صبح سے شام تک راہداری کا دورہ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے جسمانی اور الیکٹرانک سیکیورٹی نظام کے تحت زائرین کی آنے اور جانے کی نقل و حرکت کی نگرانی کرتے ہیں جبکہ بھارتی زائرین کو پاکستان کی جانب نہ جانے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ کنٹرول روم سے کیمروں کی نگرانی کے ذریعے راہداری کی تمام سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔

84 تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا، وزارت داخلہ

اس کے ساتھ ہی وزارت داخلہ نے بتایا کہ پاکستان نے 84 تنظیموں کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا ہے۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 337 افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد ہے۔

سال 2019 میں 7 لاکھ سے زائد جرم ریکارڈ، وزارت داخلہ

وزارت داخلہ کی جانب سے سال 2019 میں ملک بھر میں ہوئے جرائم کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کی جس کے مطابق سال 2019 میں 7 لاکھ 77 ہزار 2 سو 51 جرائم ریکارڈ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب جرائم میں 4 لاکھ 90 ہزار ایک سو 55 جرائم کے مقدمات کے اندراج کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا۔

خیبرپختونخوا ایک لاکھ 78 ہزار ایک سو 31 مقدمات کے ساتھ دوسرے نمبر جبکہ سندھ 85 ہزار 6 سو 76 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

وزارت داخلہ کے مطابق سب سے کم جرائم گلگت بلتستان میں ہوئے، خیبرپختونخوا میں پشاور 38 ہزار 9 سو 26 جرائم کے ساتھ سب سے زیادہ جرائم والا شہر جبکہ کوہستان 222 جرائم کے ساتھ سب سے کم جرائم والا ضلع رہا۔

بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی آئی، وزارت داخلہ

علاوہ ازیں وزارت داخلہ نے بتایا کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی آئی ہے، سال 2018 میں اسلام آباد میں بچوں سے زیادتی کے 66 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2019 میں 60 واقعات ہوئے۔

تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے بتایا کہ سال 2018 میں بچوں سے زیادتی کے 80 جبکہ 2019 میں 75 ملزمان گرفتار ہوئے۔

انسانی اعضا کی اسمگلنگ میں کمی آرہی ہے، وزارت داخلہ

وزارت داخلہ نے بتایا کہ ملک میں انسانی اعضا کی اسمگلنگ میں اضافہ نہیں ہورہا بلکہ کمی آرہی ہے۔

تحریری جواب میں بتایا گیا کہ سال 2014 سے 2016 تک انسانی اعضا کی اسمگلنگ کا کوئی ایک کیس ایف آئی اے میں درج نہیں ہوا۔

وزارت داخلہ کے مطابق 2017 میں انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے 4 مقدمات درج 30 ملزمان گرفتار ہوئے جبکہ 2018 میں 2 مقدمات درج ہوئے 6 ملزمان گرفتار ہوئے اور 2019 میں ایک مقدمہ درج ہوا اور ایک ملزم گرفتار ہوا۔

سال 2017 سے سال 2019 تک انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے 7 مقدمات درج ہوئے 37 ملزمان گرفتار ہوئے تاہم کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024