• KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.9°C
  • LHR: Clear 16.8°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.4°C

ایم کیو ایم وفد کی حکومتی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات، کراچی پیکج کا معاملہ زیر غور

شائع February 6, 2020
ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی گتھی الجھی نہیں ہے جو سلجھے گی، گورنر سندھ — فوٹو: ڈان نیوز
ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی گتھی الجھی نہیں ہے جو سلجھے گی، گورنر سندھ — فوٹو: ڈان نیوز

حکومتی مذاکراتی ٹیم سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفد کی ملاقات میں ایم کیو ایم کی طرف سے ایک بار پھر کراچی پیکج کا معاملہ اٹھایا گیا۔

ایم کیو ایم کے وفد اور حکومتی ٹیم کے درمیان وزارت منصوبہ بندی میں ملاقات ہوئی جس میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر، ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور فیصل سبزواری موجود تھے۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ایک کیو ایم سے بات چیت بھی ہو رہی ہے اور ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں، ایم کیو ایم نے کبھی وزارت کی بات نہیں کی اور نہ ہی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی کشمکش ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی دونوں جماعتوں کو کراچی میں مینڈیٹ ملا ہے لیکن پاکستان کی معیشت میں کراچی کا آبادی کے لحاظ سے جو حق بنتا ہے وہ اسے نہیں مل رہا۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ملاقات کے لیے آئے تھے مذاکرات کے لیے نہیں جبکہ جو سوالات تھے ان کے جوابات مانگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی ملک کے بجٹ کا 65 فیصد پورا کرتا ہے لیکن اس کو بہت کم بجٹ دیا جاتا ہے، ہم اس میں اضافہ چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کراچی پیکج جاری کرکے کنٹرول کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کو دیا جائے۔

مزید پڑھیں: حکومت، ایم کیو ایم وفود کی 'ملاقات': خالد مقبول وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر قائم

اس موقع پر گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کوئی گتھی الجھی نہیں ہے جو سلجھے گی جبکہ ایم کیو ایم سے اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم کو وفاق میں اضافی وزارت ملنے کے حوالے سے اسد عمر اور خالد مقبول صدیقی دونوں کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کبھی بات نہیں ہوئی۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ رابطے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔

ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ساتھ رابطے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا کنوینر اسد عمر کو مقرر کیا گیا تھا، جبکہ دیگر اراکین میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل، فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی تقریباً تمام اتحادی جماعتیں ان سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے جانے کی شکایت کر رہی ہیں۔

وفاق میں حکومت قائم رکھنے کے لیے تحریک انصاف کے لیے تمام اتحادی اہم ہیں کیونکہ قومی اسمبلی میں اسے معمولی برتری حاصل ہے۔

حکومت کی صفوں میں پائی جانے والی یہ پریشانی اس وقت کھل کر سامنے آگئی تھی جب رواں ماہ کے اوائل میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے دو وزرا نے شرکت نہیں کی تھی۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) اور بی این پی رہنماؤں جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم رہنماؤں سے تین الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد، 'چاہتے ہیں خالد مقبول کابینہ کا حصہ بنیں'

ایم کیو ایم کے تحفظات

12 جنوری 2020 کو خالد مقبول صدیقی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے لیکن سب باتیں کاغذوں تک محدود رہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 'میرے لیے ایسی صورت حال میں وزارت میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے رہیں اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام انہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں جن کا وہ ہمارے حکومت میں آنے سے قبل سامنا کر رہے تھے'۔

ایم کیو ایم کی جانب سے ایک عرصے سے حکومت کی جانب سے وعدے پورے نہ کرنے اور کراچی اور حیدرآباد کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کیا جاتا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025