افسانہ: ’میں باتونی شخص کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی‘
بریک اَپ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب انسانوں نے آپس میں منہ سے گفتگو کرنا تقریباً ترک کردیا تھا اور ان کی زبانیں فقط کھانوں کا ذائقہ چکھنے کے کام آیا کرتی تھیں۔
وہ لکھ کر ایک دوسرے کو بتایا کرتے کہ وہ خوش یا دکھی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات بہت مصروف تھے کہ لوگ ان کے پاس جوق در جوق آتے اور وہ ان سے فیس لے کر کچھ دیر گفتگو کرتے۔ مریض بتاتے کہ ایسا کرنے سے وہ بہت بہتر محسوس کرتے ہیں۔
انہی دنوں ایک آدمی کہ جسے نیند میں چلنے کی عادت تھی، بہت پریشان تھا۔ اس نے اپنی محبوبہ سے کہا کہ بہت زیادہ خاموش رہنے سے اسے محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ ایک سردخانے میں ہے اور کانپ رہا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ روز اس پارک میں ایک گھنٹہ گفتگو کریں۔
یہ سن کر اس کی محبوبہ بہت ناراض ہوئی اور کہا کہ وہ ایک باتونی شخص کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی۔
ایک منٹ کا معدوم لمحہ
اسے پانی پر نام لکھنے کا جنون تھا، وہ کہتا پانی پر نام لکھا تو جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے آدمی کو بہت تیزی دکھانی پڑتی ہے۔ یہ منٹوں کا نہیں سیکنڈز کا کام ہے اور اگر انسان مسلسل محنت کرتا رہے تو ایسا ممکن ہے۔
وہ روز صبح دریا کنارے بیٹھ جاتا اور سوچتا کہ آخر کس طرح وہ تیزی سے پانی کی لہروں پر اپنا نام لکھ سکتا ہے؟ بہت سے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ یہ ایک کارِ لاحاصل ہے، پانی پر بھلا نام کیسے لکھا جاسکتا ہے؟
لیکن وہ نہیں مانا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
وہ ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی، بہت سے بچے دریا میں تیر رہے تھے، ایک بچے نے کنارے پر موجود درخت کی شاخ سے دریا میں چھلانگ لگائی تو کافی دیر پانی سے باہر نہ آیا۔ وہ نوجوان جس نے دریا کی لہروں پر اپنا نام لکھنا تھا، یہ دیکھ کر فوراً دریا میں کود گیا۔ لوگوں نے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ ملے۔
اگلے روز دوپہر اسی وقت، لوگوں نے دیکھا کہ دونوں لاشیں منٹ کے کسی معدوم لمحے میں سطح پر ابھر آئی تھیں۔
غریب لڑکی کی امیر آنکھیں
دنیا میں اندھے کم ہیں، اکثر لوگوں کے پاس آنکھیں ہیں۔
آنکھیں جو بہت سے منظر دیکھ سکتی ہیں لیکن بہت کم کسی دوسرے انسان کی آنکھوں میں چھپی اداسی دیکھ پاتی ہیں۔ وہ آنکھیں حسین تھیں لیکن جس چہرے پر موجود تھیں وہ کچی آبادی کا مکین تھا اور اس لڑکی کا باپ چوک میں پکوڑے بیچنے کا ٹھیلا لگاتا تھا۔
جس دن مہنگائی سے دلبرداشتہ ہوتا تو بیوی اور بیٹی کو بہت مار پڑتی۔ وہ سارا دن سستی سگریٹیں پیتا رہتا تھا۔ ایک رات اس کا دل بہت تیز دھڑکا پھر یکدم اتنا سست پڑگیا کہ اسے چار لوگ اٹھا کر لے گئے۔ وہ آنکھیں ایک حسین چہرے پر تھیں لیکن وہ چہرہ اب اشارے پر بھیک مانگتا دکھائی دیتا ہے اور بہت کم آنکھیں ان میں چھپا درد جان سکتی ہیں۔
دنیا میں اندھے زیادہ ہیں، بہت کم لوگوں کے پاس آنکھیں ہیں۔
پاگل کتوں کی بہتات
ان دنوں شہر میں پاگل کتوں کی بہتات تھی اور اس ننھی لڑکی کو ہمیشہ ان سے خوف آتا تھا۔
ایک روز چلتے چلتے شہر کی کسی ویران گلی میں کتوں نے اس پر حملہ کردیا۔ پہلے وہ اسے کھینچتے ہوئے گلی کے سِرے تک لے گئے پھر کنارے پر بھنبھوڑنے لگے۔ کتوں کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور آنکھوں میں وحشت تھی۔ گلی میں دُور دُور تک کوئی بھی ایسا آدمی نہیں تھا جو اسے ان کی قید سے آزاد کرا سکتا۔
وہ چیخی چلائی لیکن کتوں کے چنگل سے آزاد نہ ہوسکی۔
اگلے دن اس کی موت کی خبر اخبارات میں چھپی تو حکومت نے اس کے باپ کو 5 لاکھ کا چیک دیا۔
شہر میں کتے اب بھی آزاد تھے...
ایک سوال
وہ بہت نڈھال تھا، حتٰی کہ اس سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔
’پہلے پرچی بنوالو‘، کاؤنٹر پر بیٹھے آدمی نے کہا۔
’’جی وہ مجھے نظر کچھ نہیں آرہا، آپ براہِ مہربانی جلدی سے پرچی بنادیں‘، اس نے کہا۔
’یہ لو پرچی اور مریضوں کی قطار میں کھڑے ہوجاؤ، ڈاکٹر صاحب باری آنے پر چیک اپ کریں گے۔‘
’اتنی لمبی قطار میں تو آدمی کی عمر گزر سکتی ہے‘، اس نے سوچا۔
آخر خود کو گھسیٹتے گھسیٹتے وہ ڈاکٹر صاحب تک پہنچ ہی گیا۔
’ڈاکٹر صاحب! میں نے جب 2 روز سے کچھ کھایا ہی نہیں تو میرے پیٹ میں درد کیوں ہے؟‘، اس نے مکمل بے ہوشی سے پہلے پوچھا تھا۔
اعتراف
جہاز محوِ پرواز تھا۔
اس نوجوان نے اپنی بیوی، جس سے اس کی شادی 4 روز پہلے ہوئی تھی، کہا ’میں دوسرے ملک سے فقط تم سے شادی کرنے کی خاطر آیا تھا، وہاں میرا مکان کچھ بڑا تو نہیں، مگر ہاں 2 کمرے ضرور ہیں، ہم آرام سے رہ لیں گے۔ تم سے شادی سے پہلے میری زندگی بہت تنہا تھی، اب جب کہ ہم نے تمام عمر ساتھ رہنا ہے تو میں تمہیں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ 2 سال پہلے مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوئی تھی لیکن بات شادی تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی تھی۔ عرصہ ہوا میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔‘
لڑکی یہ بات سن کر کچھ پریشان ہوگئی، اس کی آنکھوں میں حیرت اور اداسی بیک وقت تھی، جیسے وہ کچھ پوچھنا یا بتانا چاہتی ہو۔
’وہ میں بھی آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں۔‘
’Brace, Brace, Brace‘
اندھیرا۔
وقت سے پیچھے رہ گیا آدمی
وہ وقت کی رفتار سے بہت پیچھے رہ گیا تھا اور جو آدمی وقت کی رفتار سے پیچھے رہ جائے، اس کا اس زمانے میں گزر بسر ناممکنات میں سے ہے۔
لوگ کہتے ہیں، ’ہائے ہائے بیچارہ کس قدر عجیب ہے، اس کے بال دیکھو، اس کا لباس دیکھو، ایسے جیسے زمانہ قدیم سے اٹھ کر آگیا ہو۔ یقیناً یہ وقت کی رفتار سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔‘
اس نے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کی خاطر دن رات محنت کی، اپنا حال اور حلیہ سب بدل لیا لیکن لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔
’یہ وقت کی رفتار سے ابھی بھی بہت پیچھے ہے۔ روبوٹس سے گھرے، حسیات سے عاری زمانے میں اس نوجوان کے دکھ سکھ محسوس کرنے کے پیمانے وہی پرانے ہیں۔‘
غیرت
وہ جس روز پیدا ہوا اس کے باپ نے اس کی ماں سے کہا ’ہمیں اسے بڑے پُل سے نیچے پھینک دینا چاہیے کہ یہ ایک خواجہ سرا ہے، تمام عمر کا داغ۔‘
’لیکن ہمارا خون ہے‘, اس کی ماں نے مزاحمت کی تھی۔
’ہاں لیکن غیرت بھی ہمارا زیور ہے۔ لوگ کہیں گے ہیجڑے کا باپ ہے۔ مجھے بتاؤ میں کیسے دنیا کا سامنا کروں گا؟‘
’لیکن پُل سے نیچے مت پھینکو، اچھا گاؤں کے خواجہ سراؤں کو دے آؤ۔‘
اس کا باپ اسے پہلے ہی دن گرو کے گھر چھوڑ کر آگیا تھا اور شاید وہ قسمت بھی وہیں چھوڑ آیا تھا کہ پھر ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی۔
اب دونوں میاں بیوی بوڑھے ہوچکے ہیں اور سارا دن ان کے کان دروازے پر لگے رہتے ہیں کہ کب ایک خواجہ سرا اس پر دستک دے گا۔
تلاشِ گمشدہ
نیند اس سے روٹھ گئی تھی اور یادداشت روز بروز کم ہوتی جارہی تھی۔ ایک روز وہ گھر سے سبزی لینے گیا تو اپنے بچے کے جوتے خرید کر واپس آگیا۔ اس کے دماغ میں اپنے بچپن کے پھٹے پرانے جوتے بار بار دستک دینے لگے تھے۔ وہ حیران ہوتا کہ اسے یہ یاد نہ رہتا کہ صبح کیا کھایا تھا لیکن بچپن کی بہت سی تصویریں دماغ میں بار بار ابھر کرسامنے آجاتی تھیں۔
ایک رات اسے گہری نیند آئی، صبح اس کی بیوی نے جگایا تو اس کے ذہن سے بیوی کی تصویر مٹ چکی تھی۔
’تم کون ہو؟‘، اس نے آنکھیں ملتے ہوئی حیرانی سے کہا۔
’میں کون ہوں؟ اب شادی کے اتنے سالوں بعد بھی یہ بتانا پڑے گا کہ میں کون ہو؟‘
’کس کی بیوی ہو تم؟‘
’تمہاری۔‘
’میری؟ میں کون ہوں؟‘
انتظار
اس کی عمر 40 سال تھی اور گزشتہ 18 سال سے وہ ایک لڑکی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس لڑکی کا جسے اس نے اسی شہر میں دیکھا تھا جو بعد میں نوکری کی تلاش میں دوسرے شہر چلی گئی تھی۔ جس روز وہ اسے اپنی محبت کا بتانے گیا تھا عین اسی روز وہ شہر چھوڑ کر جارہی تھی۔
’میں تمہیں ہر روز خط لکھوں گی، تم پریشان مت ہونا‘، لڑکی نے جاتے ہوئے اسے یقین دلایا تھا۔
اور اس کے حصے گزشتہ 18 سال سے صرف پریشانی ہی آئی تھی۔
ایک روز بس اسٹاپ پر وہ گاڑی کا انتظار کررہا تھا کہ گاڑی سے وہ عورت اتری کہ جس کا انتظار وہ گزشتہ 18 سال سے کررہا تھا۔ سالوں کے فاصلے کے باوجود نوجوان نے اسے فوراً پہچان لیا تھا۔ وہ دوڑ کر آگے بڑھا۔ وہ اتنا بدحواس تھا کہ اسے اس خاتون کے ساتھ موجود آدمی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
’زرینہ تم آگئیں، اتنے سال بعد؟‘، اس نے فوراً پوچھا۔
عورت نے اسے غور سے دیکھا، ماضی کے صفحات کھنگالے لیکن کچھ برآمد نہ ہوا۔
’معاف کیجیے گا، میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘
’’ میں ظہیر ہوں...‘
’معذرت میں کسی ظہیر کو نہیں جانتی، آپ کو شاید کچھ غلط فہمی ہوئی ہے.‘
تبصرے (2) بند ہیں