انتہاپسند فاشسٹ نظریے کے سبب بھارت کے ٹکڑے ہو جائیں گے، عمران خان
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اگر بھارت فسطائیت اور انتہا پسند ہندووتوا کے راستے پر ہی گامزن رہا تو ہمیشہ کے لیے تقسیم ہو جائے گا اور اس کے ٹکڑے جائیں گے۔
ملائیشیا میں ایڈوانس اسلامک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے ملائیشیا کو اپنی زندگی میں تبدیل اور ترقی کرتے ہوئے دیکھا اور مجھے ملائیشیا کی یہ چیز سب سے زیادہ اچھی چیز یہ لگتی ہے کہ یہ انتہائی تہذیب یافتہ معاشرہ ہے کیونکہ یہاں مذہب اور لسانی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی ہے جو کسی مہذب معاشرے کی سب سے بڑی علامت ہے۔
مزید پڑھیں: کوالالمپور اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر افسوس ہوا، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلام کے سنہرے دور کو دیکھنا چاہیے جہاں تمام مختلف مذاہب ایک ساتھ رہتے تھے جہاں برداشت تھی اور لوگ ایک دوسرے کو قبول کرتے تھے، مذہب کو کبھی بھی جبری طور پر مسلط نہیں کیا گیا تھا جبکہ ملائیشیا میں لوگ جس طرح رہتے ہیں تو ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے اور میرے خیال میں ہمیں اس کو اپنانا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے دسمبر میں کوالالمپور سمٹ میں شرکت کے لیے یہاں آنا تھا تاکہ ہم اسلاموفوبیا کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کر سکیں۔
'اسلام اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں'
اس موقع پر انہوں نے اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ایرانی انقلاب کے موقع پر مغربی دنیا میں خوف پیدا ہو گیا تھا کہ پوری اسلامی دنیا مغرب مخالف اس انقلاب کے زیر اثر آ جائے گی اور یہ پہلا موقع تھا کہ جب مغربی دنیا کو اسلام سے خوف محسوس ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو دوسری مرتبہ اسلاموفوبیا کا خطرہ اس وقت محسوس ہوا جب 1989 میں سلمان رشدی نے ایک توہین آمیز کتاب لکھی، اس کتاب کے خلاف مسلمان ممالک میں آنے والے ردعمل کو مغربی دنیا نہ سمجھ سکی کیونکہ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی توہین کے خلاف اس حد تک شدید ردعمل کیوں دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کریں گے، ملائیشیا کی تصدیق
عمران خان نے سلمان رشدی واقعے کے بعد پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو مسلمان ممالک اور ان کی قیادت کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان رہنماؤں کو دنیا کو یہ سمجھانا چاہیے تھا کہ یہ چیز ہمارے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتی ہے اور انہیں یہ سمجھانا چاہیے تھا کہ نبی اکرمﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں اور ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک خصوصاً یورپ میں مذہب پر اس طرح سے عمل نہیں کیا جاتا جس طرح سے ہم کرتے ہیں کیونکہ وہاں وہ اپنی ہستیوں کے بارے میں مزاحیہ پروگرام کرتے ہیں جبکہ مجھے انگلینڈ میں یہ دیکھ کر بڑا دھچکا لگا، لہٰذا ہمیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ نبی اکرمﷺ کی توہین سے ہمیں اتنی تکلیف کیوں پہنچی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے بعد مغرب میں یہ تاثر بن گیا کہ اسلام ایک عدم برداشت کا مذہب ہے، یہ مغربی اقدار کے خلاف ہے جس کے بعد اسلاموفوبیا بڑھتا چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تیسرا موقع 9/11 (یعنی 11 ستمبر 2001) کا تھا جس میں 15 سے 16 دہشت گردوں نے ایک مجرمانہ سازش کی اور مسلم دنیا کے لیے سب سے تباہ کن بات یہ ہوئی کہ جب مغربی رہنماؤں نے اسے اسلامی دہشت گردی قرار دیا تو ہمیں اعتراض کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے اس دہشت گردی کے عمل کا اسلام سے آخر کیا تعلق تھا؟۔
مزید پڑھیں: کشمیر کے مسئلے پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، شیریں مزاری
انہوں نے کہا کہ اسلام اور ان دہشت گردی کی کارروائیوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور بدقسمتی سے مسلم دنیا نے بھی مغرب کی جانب سے استعمال کی جانے والی اصطلاحات 'ترقی پسند اسلام' اور 'قدامت پسند اسلام' کو استعمال کرنا شروع کردیا جو مسلم دنیا کے لیے سب سے بڑا المیہ تھا، اس کے بعد مغربی دنیا نے ہر مسلمان کو دہشت گرد سمجھنا شروع کردیا اور اسلاموفوبیا میں مزید اضافہ ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ مسلم دنیا کے رہنماؤں نے دہشت گردی اور مذہب کو آپس میں جوڑنے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے خودکش حملوں کو بھی اسلام سے جوڑ دیا گیا حالانکہ تاریخی شواہد اس بات کی یکسر نفی کرتے ہیں۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی پائلٹس نے خودکش حملے کیے لیکن کسی نے بھی ان کے مذہب کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جبکہ 9/11 سے قبل اکثر خودکش حملے ہندو تامل ٹائیگرز نے کیے لیکن کسی نے اس وقت بھی مذہب کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا تاہم اسلام اور دہشت گردی کو آپس میں جوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں مغربی ممالک میں مسلمانوں پر تشدد اور تضحیک کی کئی مثالیں نظر آتی ہیں۔
'آج مسلم امہ کی کوئی آواز نہیں کیونکہ ہم تقسیم ہیں'
وزیر اعظم نے مسلم امہ میں تقسیم سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 'دنیا میں صرف ایک کروڑ سے کچھ زائد یہودی ہیں لیکن ان کے اثر و رسوخ اور طاقت کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا، جبکہ مسلمانوں کی لگ بھگ ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود ہماری کوئی آواز نہیں کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم مسلم ممالک تو اس بات پر بھی ہم آواز نہیں ہو سکتے کہ مسئلہ کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ایک سربراہ اجلاس ہی بلا لیں، اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ مسلم ممالک ہم آواز ہوں، ہم امت کا اتحاد اس لیے نہیں چاہتے کہ ہمیں کسی سے جنگ کرنی ہے، ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کریں جس طرح دنیا کی کوئی بھی انسانی برادری اپنے تحفظات کا تحفظ کرتی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے میں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس موقع پر وزیر اعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے بات کی تاکہ ہم اس مسئلے کو اجاگر کر کے کوئی ایسا میڈیا تشکیل دے سکیں جو اسلام کے خلاف ان غلط فہمیوں کو دور کر سکے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اب بچوں کو موبائل فون میسر ہے جس کے سبب ان کی معلومات تک جتنی رسائی اب ہے، پہلے کبھی بھی نہ تھی لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسلام کی تاریخ سے آگاہ کریں اور ایک مختلف نقطہ نظر پیش کریں تاکہ ان کو اسلام کی اصل تصویر پیش کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا اور پاکستان کے درمیان 3 اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے، وزیر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نہ تو اسلام مخالف پراپیگنڈے کا شکار ہوں اور نہ ہی انتہا پسندی کی جانب راغب ہوں اور ہم اب بھی اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
'پاکستان کیلئے میرا وہی نظریہ ہے جو بانیان پاکستان کا تھا'
دیگر معاملات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے میرا وہی نظریہ ہے جو بانیان پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا اور پاکستان کے لیے ان کا نظریہ یہ تھا کہ اس ملک کو مدینہ میں مسلمانوں کی پہلی ریاست کی طرز پر بنایا جائے جس کی بنیاد ہمارے نبی اکرم ﷺ نے رکھی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جب میں وزیراعظم بنا تھا تو میں نے سب سے پہلے بھارت سے رابطہ کیا تھا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ ہو سکا وہ کریں گے کیونکہ سب سے زیادہ غریب لوگ ہمارے خطے میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں غربت کو کم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ دونوں ملک تعلق بہتر کرتے ہوئے آپس میں تجارت شروع کریں، دونوں ملکوں میں جتنی کشیدگی کم ہوگی اتنا ہی ہم دفاع پر کم خرچ کریں گے اور تجارت پر زیادہ خرچ کر سکیں گے جس سے خوشحالی بڑھے گی۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم 2 روزہ دورے پر ملائیشیا پہنچ گئے
'بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خود اس کیلئے خطرناک ہے'
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے ہمارے پیشکش کو مسلسل ٹھکرایا جاتا رہا جس کی کوئی عملی وجہ نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ بھارت پر ایک انتہا پسند نظریے نے قبضہ کر لیا ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ بھارتی عوام کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اس سے بھارت ہمیشہ کے لیے تقسیم ہو جائے گا اور اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں بڑی اقلیت موجود ہے اور ہندوتوا کے انتہا پسند فاشسٹ نظریے نے 50 کروڑ افراد کو الگ کردیا اور اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہے تو انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر ایک مرتبہ بھارت میں انتہا پسند نظریے کا جن بوتل سے باہر آ گیا تو اسے دوبارہ بوتل میں ڈالنا مشکل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس، چین میں ایک ہزار بستر کا ہسپتال 10 دن میں تعمیر
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں بھارت سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ اس کے لیے سب سے بڑی تباہی ہے کیونکہ یہ فاشسٹ سوچ کسی اور نظریے کو پنپنے کی اجازت نہیں دیتی۔
اس موقع پر انہوں نے مستقبل میں بھارت سے بہتر تعلقات کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جب کبھی بھی ایسی حکومت آتی ہے جو برصغیر میں غربت کے خاتمے اور خوشحالی پر یقین رکھتی ہو تو پاکستان انہیں دوستی کی پیشکش کرنے والا پہلا ملک ہوگا۔