گیس کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافے کا امکان
اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 2 ہفتوں پر جاری رہنے والی بحث کے آغاز پر ہی حکومت یکم فروری سے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے لیے تیار ہے تاکہ عالمی ادارے کو رواں مالی سال کے لیے ریونیو ہدف کم کرنے پر راضی کیا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز کابینہ ڈویژن نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اراکین کو طلب کیا تاکہ منگل کو کابینہ کا اجلاس منعقد کیا جاسکے، تاکہ اس میں پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے مالی سال 20-2019 میں قدرتی گیس کی قیمتوں کے حوالے سے ارسال کی گئی سمری پر بحث کی جائے'۔
علاوہ ازیں آئی ایم ایف کے وفد کی وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے ابتدائی ملاقات ہوئی، جس میں اطلاعات کے مطابق رواں مالی سال ریونیو اہداف میں کمی کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں 385 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال کا سامنا رہا۔
مزید پڑھیں: مہنگائی پر نظر رکھنے کی پالیسیوں کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے، حکومت
بعد ازاں وزیر اعظم کے مشیر عبدالحفیظ شیخ نے میڈیا نمائندگان کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے وفد اور حکومتی ٹیم کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے قرض پروگرام جاری ہے جس کے تحت آئی ایم ایف 6 ارب ڈالر کا قرض اور معاشی اصلاحات کے لیے تعاون بڑھا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے اثرات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں اور ملک بھر سے سرمایہ کاری اکٹھا ہورہی ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور ایکسچینج ریٹ میں بھی استحکام آچکا ہے جبکہ احساس پروگرام کے لیے فنڈنگ آئی ایم ایف کے تعاون سے دوگنی کردی گئی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ قوم آہستہ آہستہ قیمتوں میں کمی دیکھے گی۔
دوسری جانب معلومات رکھنے والے ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ریونیو میں مشکلات کے پیش نظر حکومت گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں بجلی کی قیمتیں ریگولیٹرز کی منظوری کے بعد بڑھی ہیں وہیں گیس کی قیمتیں بھی بڑھنے کے لیے تیار ہیں بلکہ ان میں یکم جنوری 2020 سے اضافہ ہوجانا تھا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف بی آر حکام نے آئی ایم ایف کے وفد کو مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں 24 کھرب 10 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور 385 ارب روپے کے شارٹ فال کی وجوہات بتائیں جبکہ اطلاعات کے مطابق ایف بی آر کو مارچ کے آخر تک 35 کھرب 20 ارب روپے کے ہدف کو پورا کرنا ہوگا۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ معاشی حالات ایسے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے جس کے ذریعے 50 کھرب روپے کا ریونیو ہدف سال کے آخر تک حاصل کیا جاسکے، لہٰذ ہدف پر نظر ثانی کرکے اسے کم کیا جانا چاہیے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ اتھارٹیز کی جانب سے پالیسی کی سطح پر آئی ایم سے بات چیت کا آغاز ہونا باقی ہے تاہم انہیں باقی اہداف پر کارکردگی کے حوالے سے یقین دہانی کرانی ہوگی۔
واضح رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو بیان حلفی دیا تھا کہ وہ دسمبر 2019 تک گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: گیس کی قیمتوں میں اضافہ مؤخر، ترک کمپنی کے پورٹ چارجز معاف
اس کے علاوہ انہوں نے دونوں گیس کمپنیوں کے لیے ای سی سی کی جانب سے منظور شدہ منصوبے کے تحت گیس کے نقصانات کو کم کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔
3 سالہ منصوبے کے تحت سالانہ ایک سے 2 فیصد تک نقصانات کو انفرااسٹرکچر میں بہتری، نیٹ ورک کی بحالی اور چوری روکنے کے ذریعے کم کرنے کا کہا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ای سی سی اجلاس میں 15 فیصد تک گیس کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر وزیر اعظم کی عام صارفین پر بوجھ کم سے کم کرنے کی ہدایات کے تحت بحث کی جائے گی۔
یہاں یہ واضح رہے کہ اوگرا نے مخصوص صارفین کے لیے 214 فیصد تک گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تعین کیا تھا تاہم پیٹرولیم ڈویژن نے اس پیشکش کو تبدیل کردیا تھا۔
پیٹرولیم ڈویژن کی سمری میں میٹر کے کرائے کو 20 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے، عام صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 5 فیصد، پاور پلانٹس کے لیے 12 فیصد اور صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنز کے لیے 15 فیصد اضافے کا کہا گیا ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن نے تجویز دی کہ فرٹیلائزر پلانٹس کو آر ایل این جی کی قیمت پر ایندھن فراہم کیا جانا چاہیے جو ایک ہزار 672 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔
واضح رہے کہ گیس کی قیمتوں میں پیش کردہ ایڈجسٹمنٹس کا مقصد دونوں گیس کمپنیوں کے لیے 35 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہے، جس کے لیے ریگولیٹرز نے ریونیو ضروریات کو ایس این جی پی ایل کے لیے 274 ارب 20 کروڑ روپے ایس ایس جی سی کے لیے 282 ارب 90 کروڑ بتایا ہے۔
اس کے علاوہ ای سی سی اجلاس میں دیگر 7 چیزوں پر بھی بحث کی جائے گی جن میں سے وزارت دفاع اور داخلہ کے لیے 2 تکنیکی ضمنی گرانٹس شامل ہیں۔