واضح نہیں کہ تیز گام میں آگ شارٹ سرکٹ سے لگی یا سلنڈر پھٹے، وزیر ریلوے
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ تیزگام حادثے میں آگ شارٹ سرکٹ سے لگی یا سلنڈر پھٹنے سے لیکن افسران کو اصل مجرمان کو سزا دینے کی ہدایت کردی ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ کراچی کاروبار کا گڑھ ہے اس لیے ہم نے مال بردار گاڑیوں اور زمین کے مسائل کے حل کے لیے کراچی کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: آتشزدگی کے واقعے پر تو وزیر ریلوے کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، چیف جسٹس
ان کا کہنا تھا کہ کراچی ریلوے میں لاہور سے ذمے داران افسران کو شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ کراچی کی ریل کے فیصلے وہیں سے کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی ریلوے کی شہ رگ ہے جسے نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کا مقصد اس شہر کو اہمیت دینا ہے، ہم کراچی کو اس کے شایان شان افسران دینے جا رہے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ہم کراچی میں ریلوے کے ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے جا رہے ہیں اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر ریلوے کے تمام اسکولوں اور ہسپتالوں کو پرائیویٹ شعبے کو دے دیا جائے گا۔
وزیر ریلوے نے کراچی سرکلر ریلوے کے لیے سندھ حکومت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ سرکلر ریلوے چلانے کے لیے پاکستان ریلویز کی جتنی زمین حکومت سندھ کو درکار ہو گی دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں پیش کی گئی آڈٹ رپورٹ موجودہ دور کی نہیں، شیخ رشید
ریلوے کے ملازمین کے حوالے سے شیخ رشید نے کہا کہ ٹی ایل اے کے ملازمین کا جو کیس ہے اس میں نئی بھرتیوں کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور نئی بھرتیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے 12گھنٹے کے اندر ہی ملازمین کو مستقل کردیں گے۔
شیخ رشید نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ سابق فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلویز دوست علی لغاری کی رپورٹ میں ابھی تک کوئی چیز واضح نہیں ہے اس لیے میں نے 3 افسران کو ہدایت کی ہے کہ اصل مجرمان کو سزا دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ لغاری صاحب نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ سلنڈر پھٹے لیکن پہلے سلنڈر پھٹے یا شارٹ سرکٹ ہوا، اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ دوست علی لغاری کی جانب سے مرتب کردہ تیزگام حادثے کی انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ٹرین میں آگ کچن میں الیکٹریکل کیٹل کی ناقص وائرنگ میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی جس کے باعث 75 مسافر جان کی بازی ہار گئے۔
علاوہ ازیں وزیر ریلوے نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہماری مال بردار گاڑیوں کی آمدنی بہت زیادہ ہے اور مال بردار اور مسافر گاڑیوں کی آمدن ملا کر ہم گزشتہ سال کے مقابلے میں ہدف سے آگے چل رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ریلوے سے زیادہ کرپٹ کوئی ادارہ نہیں، چیف جسٹس
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے گزشتہ سال خسارے میں 4 ارب روپے کی کمی کی اور اس سال 6 ارب کمی کریں گے جبکہ ہم نے ایک اقدام اٹھایا ہے کہ وفاقی حکومت ریلوے کی پنشن کے پیسے اپنے ذمے لے جس سے خسارہ 3-4 سال میں کم ہو جائے گا کیونکہ محکمہ 40 ارب کی پنشن اپنی جیب سے دیتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو ہم اسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کی آمدن بہتر کرنے کے لیے ہم ریلوے کی قبضہ کی گئی قیمتی اراضی چھڑوانے جا رہے ہیں، رائل پام ہم نے سپریم کورٹ کی مدد سے لیا ہے اور چار دیگر اہم زمینیں بھی سپریم کورٹ کے ذریعے ہی واپس لیں گئے۔
وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس پاکستان کی معیشت کے لیے بھی بڑا امتحان ہے، پورٹ بند ہونے سے چین سے آنے والا فائبر بند ہے اور کپڑا بنانے کی مشینیں پنجاب میں بند ہونے جا رہی ہیں جس کے پاکستانی معیشت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے لیکن متعلقہ وزارتیں اس کو بہتر طریقے سے ہینڈل کر رہی ہیں۔