تھرپارکر: مندر میں دست اندازی کرنے والے 4 کم سن لڑکے رہا
ضلع تھرپارکر میں مندر میں چوری کی غرض سے گھسنے کا اعتراف کرنے والے 4 کم سن دست اندازوں کو شکایت کنندہ کی طرف سے درخواست واپس لینے کے بعد رہا کردیا گیا۔
چند روز قبل تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے نواحی علاقے میں واقع گاؤں پریموجی واری کے ایک مندر میں چار کم سن لڑکے دیوتاؤں کو دان کیے جانے والے پیسے چُرانے کے لیے گھس آئے تھے۔
واقعے کے شکایت کنندہ پریم کُمار نے مقامی ہندو پنچائیت کے رہنماؤں کی درخواست پر جذبہ خیر سگالی کے تحت بچوں کے خلاف الزامات واپس لیے۔
اسی گاؤں کے پرائمری اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والے 12 سے 15 سال کی عمر کے چاروں بچوں کو پیر کی رات گئے چھاچھرو پولیس نے مقامی افراد کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔
لڑکوں نے مندر میں پیسوں کے ڈبے سے رقم چوری کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
ابتدائی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کم عمر لڑکوں نے مندر میں چند دیوتاؤں کے بتوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
یہ بھی پڑھیں: تھر: گاؤں کے مندر میں توڑ پھوڑ، 4 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج
اس واقعے نے صحرائی علاقے میں ہنگامہ برپا کردیا تھا اور سندھ کابینہ کے اراکین اور قانون سازوں نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
پریم کمار کی شکایت پر پولیس نے لڑکوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سمیت مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی تھی۔
مقامی عدالت کے حکم پر حیدر آباد کے بچہ اسکول میں بھیجے جانے والے لڑکوں کو ہفتہ کے روز مِٹھی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران شکایت کنندہ کی طرف سے الزامات واپس لیے جانے کی درخواست کے بعد عدالت نے لڑکوں کی رہائی کا حکم دیا۔
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق ایڈووکیٹ ویرجی کولہی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندو پنچائیت کے رہنماؤں نے شکایت کنندہ سے جذبہ خیر سگالی کے تحت لڑکوں کو معاف کرکے ان کے خلاف الزامات واپس لینے کی درخواست کی تھی۔
مزید پڑھیں: گھوٹکی: اسکول پرنسپل پر توہین مذہب کا الزام، شہریوں کا احتجاج
انہوں نے امید ظاہر کی کہ مسلم برادری بھی گھوٹکی کے سینئر ہندو ٹیچر کے خلاف توہین مذہب کے کیس میں اسی جذبے کا مظاہرہ کرے گی۔
تھرپارکر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) عبداللہ احمدیار کا رابطہ کرنے پر کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے بعد لڑکوں کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا جائے گا۔