• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

جماعت اسلامی کی سربراہی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاجی دھرنا

شائع February 1, 2020
مظاہرین نے بحریہ ٹاؤن کے دفتر کے باہر دھرنا دیا—تصویر: جماعت اسلامی فیس بک
مظاہرین نے بحریہ ٹاؤن کے دفتر کے باہر دھرنا دیا—تصویر: جماعت اسلامی فیس بک
خواتین اور بچوں سمیت مظاہرین بحریہ ٹاؤن کے خلاف پلے کارڈز اٹھائے ہوئے—تصویر: ڈان
خواتین اور بچوں سمیت مظاہرین بحریہ ٹاؤن کے خلاف پلے کارڈز اٹھائے ہوئے—تصویر: ڈان

کراچی: بحریہ ٹاؤن کراچی(بی ٹی کے) میں املاک بُک کروانے والے افراد کی بڑی تعداد نے طارق روڈ پر کمپنی کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور اپنی محنت سے کمائی رقم کے ’حقیقی استعمال‘ اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

مذکورہ احتجاج کا انعقاد جماعت اسلامی نے کیا تھا جس نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں 9 فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی موجود تھے جنہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جبکہ احتجاج کے دوران ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان تحقیقات: بحریہ ٹاؤن و دیگر کی بے لگام لالچ

انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکام سے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں جس میں متوسط طبقے اور بالائی متوسط طبقے کی بھاری سرمایہ کاری شامل ہے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کے دعوے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے نعرے سے انتخاباے میں کامیابی حاصل کی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے کبھی بھی بحریہ ٹاؤن کی بدعنوانیوں اور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔

مزید پڑھیں:’بحریہ ٹاؤن نے وہ پلاٹ بھی فروخت کیے جو اس کی ملکیت نہیں تھے’

حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک منظم دھوکا دہی ہے جس میں الاٹیز کو ان کی املاک کی ملکیت نہیں دی گئی جبکہ جن سے ری فنڈ کا وعدہ کیا گیا انہیں بھی ادائیگی نہیں کی گئی‘۔

جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ نے کہا کہ ’جن افراد کو ان کے پلاٹس کی مکمل ادائیگی کرنے کے بعد ملکیت ملنے والی تھی ان سے 30 فیصد اضافی رقم جمع کروانے کا کہا گیا جو کہ اصل معاہدے کے خلاف ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک کمپنی ریاست کے اندر ریاست کی طرح کام کررہی ہے اور کسی میں جرات نہیں کہ اس سے سوال کرسکے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے عوام کو ریاست کے تیزی سے ختم ہوتے کردار کے حوالے سے تشویش ہے، ایک ایسے وقت میں کہ جب ان کے پاس اپنی شکایات لے کر جانے کی کوئی جگہ نہیں جبکہ کوئی بھی اپنے مضبوط تعلقات کی بنیاد پر آسانی سے شہریوں کا پیسہ چرانے کے لیے ’اسمارٹ اسکیم‘ بنا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان تحقیقات: لینڈ مافیا کے ریکٹس اور تباہی کی پیش گوئی

انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا، ’ہمارا احتجاج بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کیے گئے استحصال کے خلاف ہے لیکن ساتھ ہی ہم اس ساری صورتحال کے دوران غائب رہنے پر حکومت پاکستان اور حکومت سندھ کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہیں۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم یہاں اس لیے موجود ہیں کہ ملک ریاض سے ہزاروں افراد کا مسئلہ حل کرنے کا کہا جائے ورنہ اگلے مرحلے میں ہم حکام پر کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے اور اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو 9 فروری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا‘۔


یہ خبر یکم فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024