چین میں مقیم پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں، دفتر خارجہ
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ حکومت چین میں موجود پاکستانیوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔
دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس جیسے چیلنج کا سامنا کرنے والے ملک چین کی ہر ممکن تعاون کے لیے پاکستان تیار ہے، اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے چینی اقدامات قابل تحسین ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے وائرس کی روک تھام کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی ہے جبکہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے ایمرجنسی ڈکلیئر کردی ہے اور وہاں ایمرجنسی سینٹر بھی قائم کردیا گیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس وقت تک کسی بھی ملک نے باقاعدہ چین سے لوگ نہیں نکالے، مختلف ممالک چین سے بات چیت کر رہے ہیں'۔
ترجمان دفتر خارجہ نے چین کے سفارتخانے سے مل کر وہاں موجود طلبہ سے رابطے میں ہیں، پاکستانی طلبہ کی فلاح کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے'۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے نریندر مودی کا متشدد بیان مسترد کردیا
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ وہاں فلائٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو مشکلات ہوئیں جس پر حکومت چین سے درخواست کی ہے کہ ان کا خیال رکھا جائے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'وبا کے سامنے آتے ہی سفارتخانے کی جانب سے طلبہ سے رابطہ کیا گیا تھا، لوگوں کی فلاح کے لیے جو بھی بہتر حل ہے وہ ہی اٹھایا جائے گا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'جو طلبہ سفارتخانے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں انہیں فوری طور پر رجسٹرڈ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے اور جہاں تک خوراک کا اور دیگر مسائل کی بات ہے، ان کو حل کرنے کے لیے چین سے رابطے میں ہیں'۔
عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے چین کے ساتھ سرحد اب اپریل تک ہی معمول کے مطابق بند رکھا جائے گا۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا کورونا وائرس انتہائی تیزی سے چین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پھیلتا جا رہا ہے اور اب تک اس وائرس کے نتیجے میں چین میں 170 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس کے دوران چین کے شہر ووہان میں موجود 4 پاکستانی طلبہ کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی تھی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ چین میں 28 سے 30 ہزار پاکستانی مقیم ہیں جن میں بڑی تعداد طلبہ کی ہے جو مختلف صوبوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ وائرس کے مرکز شہر ووہان میں 500 کے قریب پاکستانی طلبہ ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے طلبہ کے اہلِ خانہ اور تمام پاکستانی شہریوں کو یقین دہانی کروائی کہ ان کے تحفظ اور ان کے علاج معالجے کی ذمہ داری حکومت پاکستان کی ہے، جن کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل چینی شہر ووہان میں موجود پاکستانی طلبہ ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے وائرس کے خوف اور خوراک کی قلت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے فوری مدد کی درخواست کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کی وجہ سے ہم سب بہت خوف و ہراس کا شکار ہیں، ایک جانب یہ خوف ہے اور دوسری جانب ہمیں خوراک کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے لہٰذا ہماری حکام بالا سے گزارش ہے کہ ووہان میں موجود تمام پاکستانی طلبہ کو کسی بھی طرح یہاں سے نکالا جائے'۔
انہوں نے کہا تھا کہ فرانسیسی اور امریکی سفارتخانے چین میں موجود اپنے شہریوں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ اپنے شہریوں کو ووہان سے نکال سکیں اور ہمیں بھی اسی طرح کی مدد درکار ہے تاکہ آپ لوگ ہمیں یہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔
'بھارت کے اشتعال انگیز بیان خطے کے لیے بہتر نہیں'
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان کو جنگ میں 10 روز میں شکست دینے کے بیان پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات آتے ہیں جو کسی صورت خطے کے لیے بہتر نہیں'۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو کسی بھی نئی جنگ میں 10 روز سے بھی کم وقت میں شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فوجی اہلکاروں سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ 'ہماری مسلح افواج پاکستان کو دھول چٹانے کے لیے 7 سے 10 دن سے زیادہ وقت نہیں لیں گی'۔
یوم یکجہتی کشمیر منانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'بیرون ممالک پاکستانی سفارتخانے بھی یکجہتی کشمیر کے دن کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں'۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کی کسی تجویز پر اس وقت غور نہیں ہورہا اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔
وزیر خارجہ کا دورہ کینیا
وزیر خارجہ کے دورہ کینیا کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 'وزیر خارجہ اس وقت کینیا کے اہم دورے پر ہیں جہاں وہ نیروبی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت کریں گے'۔
انہوں نے بتایا کہ 'کینیا میں ہونے والی اس کانفرس میں پاکستان کے 100 بزنس مین شرکت کررہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے کینیا میں تجارتی ڈپلومیسی کا آغاز کردیا ہے'۔