نئے آئی جی کی تعیناتی کیلئے گورنر سے مشاورت نہیں کریں گے، ترجمان سندھ حکومت
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے آئی جی سندھ کے نام کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر گورنر سندھ سے کوئی مشاورت نہیں ہوگی۔
سندھ حکومت کے ترجمان اور مشیر قانون، ماحولیات و ساحلی ترقی مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ موجودہ آئی جی کلیم امام سیاسی ہوگئے ہیں، پی ٹی آئی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) ان کے لیے سیاست کر رہی ہیں وہ اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے بیان بازی میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نئے آئی جی کی تقرری کے لیے گورنر سندھ سے کوئی مشاورت کریں گے اور نہ ہی اس کے پابند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کے درمیان ملاقات میں نئے آئی جی کے نام پر اتفاق ہوگیا تھا اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ صوبے میں جرائم ہوتے ہیں تو مورد الزام صوبائی حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ملاقات اور اعتماد میں لینے کے بعد آئی جی پولیس کو ہٹانے کا معاملہ صوبائی کابینہ میں لایا گیا۔
مزید پڑھیں:آئی جی سندھ کیلئے مشتاق مہر کا نام وفاقی کابینہ نے واپس کردیا، معاون خصوصی
مرتضی وہاب نے کہا کہ حکومت سندھ نے آئی جی کے عہدے کے لیے تین نام ارسال کیے تھے، بعد ازاں پانچ نام مانگے گئے جس پر مزید اضافہ کرکے پانچ نام بھی بھیج دیے گئے لیکن اس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ گورنر ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ملاقات میں بھی پانچ میں سے ایک نام پر اتفاق ہوگیا تھا اور دوسرے روز نوٹی فکیشن جاری کرنے کا کہا گیا تھا لیکن میڈیا سے معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کے اتحادیوں نے سندھ حکومت کے ناموں پر اعتراض کردیا ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر آئی جی پولیس کی جانب سے بیان آیا کہ وہ کہیں نہیں جارہے ہیں، ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے اور بعض سازشوں کا بھی ذکر کیا گیا جبکہ ان کے بیان کے بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان سے متعلق فیصلہ بھی کرلیا گیا جس پر ہمیں حیرت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں اور پرامید ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا۔
ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ پولیس ایکٹ کے مطابق آئی جی پولیس سے متعلق مشاورت گورنر سندھ کے بجائے وفاق اور صوبے کے درمیان ہونی ہے، وفاقی کابینہ ایک آئینی فورم ہے وہاں ایسا فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے آئی جی کی تعیناتی آئین و قانون کے مطابق ہونی چاہیے، سندھ حکومت کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی طور پر اپنا حق نہیں مانگ رہی، پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں کتنے آئی جی تبدیل ہوئے کبھی کسی نے بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا پنجاب حکومت نے 26 نومبر کو وفاق کو آئی جی پولیس کے لیے تین نام ارسال کیے اور وفاق نے اسی روز تین ناموں میں سے شعیب دستگیر کا نوٹی فیکشن جاری کردیا۔
وفاقی حکومت کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک صوبے میں چند گھنٹوں میں مشاورت ہوجاتی ہے جبکہ دوسرے صوبے میں اسی کام کے لیے کئی روز لگا دیے گئے۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ہم وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ دو نہیں ایک پاکستان تو خدارا ہمارے ساتھ بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرح برتاؤ کیا جائے اور عوام کے حق کو نہ چھینا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں سب سے بڑا فورم صوبائی کابینہ ہے اور اس فورم نے آئی جی پولیس کلیم امام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جو کابینہ کا آئینی حق ہے اور اس کے تمام اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:میرے خلاف بڑی سازش ہوئی ہے، آئی جی سندھ کلیم امام
انہوں نے آئی جی کلیم امام کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کپتان وزیراعلیٰ کے دور میں قائم ہوا جبکہ کلیم امام پر سندھ حکومت عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے مگر وہ ابھی تک صوبے کے عوام پر مسلط ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ مان لیں کہ انتظامی اعتبار سے دو پاکستان ہیں، پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کے لئے ایک ہی قانون ہونا چاہیے ہم اپنا آئینی حق مانگتے رہیں گے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی آئی جی تبدیل ہوئے تو کیا وہاں ان کے تعلقات خراب ہوگئے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ یہ حکومت کا آئینی حق ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ آئی جی کلیم امام سیاسی ہوگئے ہیں جس طرح ان کے لیے پی ٹی آئی اور جی ڈی اے آواز بلند کررہی ہیں لگتا ہے وہ سیاست میں آگئے ہیں۔
آئی جی سندھ کی تعیناتی پر وفاق کا مؤقف
خیال رہے کہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ روز کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو آگاہ کرتےہوئے کہا تھا کہ وفاقی کابینہ نے آئی جی سندھ کے تجویز کردہ نام مشتاق مہر کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایجنڈے میں پہلے نمبر پر ‘آئی جی کی تعیناتی کا معاملہ تھا، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سندھ کی ملاقات میں چند نام میں اتفاق رائے اور بات چل رہی تھی لیکن جب یہ نام کابینہ میں رکھے گئے تو اکثریتی اراکین خصوصاً اتحادی اور کراچی، سندھ سے تعلق رکھنے والے کابینہ اراکین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا’۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘کراچی کے اندر سیاسی طور پر نشانے بنانے کے عمل کو سامنے رکھ کر اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کو مراد علی شاہ سے ایک مرتبہ پھر مشاورتی عمل شروع کرنے کی ہدایت دی ہے’۔
مزید پڑھیں:'سندھ میں عوام کی خدمت کرنے والا آئی جی چاہیے'
فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ ‘مجوزہ نام اور نئے نام جن پر دونوں کا اتفاق رائے ہو ان کو کابینہ کے سامنے لایا جائے اور مشتاق مہر کی تعیناتی کے حوالے سے اختلاف ہوا ہے اور اس معاملے کو گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ کی مشاورت کے بعد کابینہ کے ایجنڈے میں لایا جائے گا’۔
وزیراعظم کے دورہ کراچی پر سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دو روز قبل کراچی کا دورہ کیا تھا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی جی سندھ کلیم امام کی تبدیلی کے حوالے سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے مشاورت کے بعد مشتاق مہر کے نام پر اتفاق کرلیا گیا تھا۔
ملاقات سے متعلق قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس یہ ماننے کی وجوہات تھیں کہ وفاق اور صوبے نے تقریباً اس معاملے کو حل کرلیا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیراعظم نے نہ صرف 'وزیراعلیٰ کے پولیس کمانڈ میں تبدیلی سے متعلق بات' کو سنا تھا بلکہ اس پر کافی حد تک اتفاق بھی کیا تھا جبکہ سندھ کے گورنر نے بھی مراد علی شاہ کی بات کی حمایت کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے آئی جی سندھ کے لیے صوبائی حکومت نے غلام قادر تھیبو، مشتاق احمد مہر اور ڈاکٹر کامران فضل کے نام تجویز کیے ہیں۔
اس سے قبل وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو واضح پیغام دیا تھا کہ وہ یکطرفہ طور پر آئی جی سندھ کلیم امام کو واپس یا تبدیل نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:وفاق کا حکومت سندھ کی درخواست پر آئی جی کلیم امام کو فوری ہٹانے سے انکار
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے چیف سیکریٹری سندھ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت اور فیڈریڈنگ یونٹس کے درمیان 1993 کے معاہدے کے تحت انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کا چارج ایڈیشنل آئی جی کو دینا درست نہیں ہوگا۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے 20 جنوری کو مذکورہ معاملے پر صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کا جواب موصول ہونے تک آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹانے سے روک دیا تھا۔
ادھر آئی جی سندھ کلیم امام نے سندھ حکومت اور ان کے درمیان چلنے والے تنازع پر کہا تھا کہ ان کے خلاف ایک بڑی سازش ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اتنی آسانی سے ٹرانسفر نہیں ہورہا اور میں جب بھی جاؤں گا اپنے مقدر سے جاؤں گا اور ٹرانسفر نہیں ہوں گا بلکہ ایک نیا انقلاب ہوگا اور نئے مراحل پر جاؤں گا۔
کلیم امام نے محاورتاً کہا کہ اگر وہ کہیں گئے بھی تو 'ہاتھی سوا لاکھ کا' ہی رہوں گا، آپ فکر نہ کریں۔