سندھ کے 2 پولیس افسران کا تبادلہ غیرقانونی قرار
سندھ ہائی کورٹ نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) خادم حسین رند اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ڈاکٹر رضوان کے تبادلے کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2 پولیس افسران کے تبادلے سے متعلق ناصر جبران کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے ڈی آئی جی خادم حسین اور ایس پی ڈاکٹر رضوان کے تبادلے کا سندھ حکومت کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا۔
فیصلے میں عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت، انسپکٹر جنرل (آئی جی) کی مشاورت کے بغیر پولیس افسران کے تبادلے نہیں کرسکتی۔
سندھ ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے کے مطابق 16 دسمبر 2019 کو دونوں افسران کے تبادلے پر حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔
عدالت نے دونوں افسراں کے تبادلے کے خلاف درخواست نمٹادی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حالیہ دنوں میں 80 پولیس افسران کے تبادلے کیے گئے، سندھ حکومت نے اپنے قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔
مزید پڑھیں: میرے خلاف بڑی سازش ہوئی ہے، آئی جی سندھ کلیم امام
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ڈی آئی جی خادم حسین کا تبادلہ بھی آئی جی کے علم میں لائے بغیر کیا گیا جبکہ ڈی آئی جی کے تبادلے کے لیے آئی جی سے مشاورت لازمی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی خادم حسین اور ایس پی ڈاکٹر رضوان کے تبادلے سے متعلق بالترتیب 15 اکتوبر اور 6 دسمبر کو جاری نوٹی فکیشن معطل کردیے تھے۔
عدالت نے سندھ میں پولیس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں میں صوبائی حکومت کی مداخلت کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے صوبائی حکام سے جواب بھی طلب کیا تھا۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں آئی جی سندھ کلیم امام کی تبدیلی کا معاملہ بھی تنازع کی صورت اختیار کرگیا ہے اور اس حوالے سے گزشتہ روز انہوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ایک بڑی شدید سازش ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کیلئے مشتاق مہر کا نام وفاقی کابینہ نے واپس کردیا، معاون خصوصی
2 روز قبل ہونے والی ملاقات میں عمران خان نے وزیراعلیٰ سندھ کی آئی جی کلیم امام کی تبدیلی کے لیے کی گئی درخواست پر 'مثبت اشارہ' دیا تھا۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیراعظم نے نہ صرف 'وزیراعلیٰ کے پولیس کمانڈ میں تبدیلی سے متعلق بات' کو سنا تھا بلکہ اس پر کافی حد تک اتفاق بھی کیا تھا جبکہ سندھ کے گورنر نے بھی مراد علی شاہ کی بات کی حمایت کی تھی۔
لہٰذا ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ نئے آئی جی سندھ کے لیے صوبائی حکومت نے غلام قادر تھیبو، مشتاق احمد مہر اور ڈاکٹر کامران فضل کے نام تجویز کیے ہیں۔
بعدازاں گزشتہ روز معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں پہلے نمبر پر ‘آئی جی کی تعیناتی کا معاملہ تھا، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سندھ کی ملاقات میں چند نام میں اتفاق رائے اور بات چل رہی تھی لیکن جب یہ نام کابینہ میں رکھے گئے تو اکثریتی اراکین خصوصاً اتحادی اور کراچی، سندھ سے تعلق رکھنے والے کابینہ اراکین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا’۔