وسیم صاحب! کیا ’عام کراچی والوں‘ سے بھی معافی مانگیں گے؟
گزشتہ دنوں ہم نے میئر کراچی وسیم اختر کا جب یہ بیان پڑھا کہ ‘ہم سب بھائی ہیں’ تو ہم چونک گئے۔ مزے کی بات یہ کہ اس خبر کی سرخی بھی ’بھائی چارے کا فروغ’ لگائی گئی!
’ایم کیو ایم‘ اور ’بھائی‘؟ یہ آخر چکر کیا ہے، جب خبر کی تفصیلات پڑھیں، تو پتا چلا کہ ایک نوجوان حسنین حیدر نے وسیم اختر کے بیٹے تیمور اختر پر یہ الزام لگایا کہ تیمور نے 31 دسمبر کی رات کو ڈیفنس، کراچی میں اسے پستول کا بٹ مارا اور تشدد کرکے زخمی کیا۔ اس واقعے کا باقاعدہ مقدمہ بھی درج ہوگیا، جس کے اگلے روز وسیم اختر صاحب ’صلح صفائی‘ کے واسطے خود مقدمے کے مدعی حسنین حیدر کے گھر پہنچ گئے اور حسنین کے والد محبوب عباسی سے معذرت کرتے ہوئے نہ صرف اپنی غلطی مانی اور کہا کہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم سب بھائی ہیں، بھائیوں کے درمیان غلط ہوا ہے۔
معذرت کرنے پر وسیم اختر کے بیٹے تیمور اختر کو معاف کردیا گیا اور مقدمہ واپس لینے کا وعدہ کرلیا۔ اس موقع پر حسنین حیدر سے تیمور اختر کو گلے بھی ملوایا گیا۔ اس ملاقات میں مسلم لیگ (فنکشنل) کی رہنما نصرت سحر عباسی اور دیگر بھی موجود تھے۔
نیّتوں کا حال تو صرف رب ہی جانے ہے، لیکن اپنی غلطی ماننا اور صلح صفائی کرنا بلاشبہ ایک مستحسن فعل ہے، اور بالخصوص تب جب آپ کسی بڑے عہدے پر فائز ہوں۔ اس لیے ہم کھلے دل سے وسیم اختر کے اس قدم کی ستائش کرتے ہیں۔ ہم یہاں قطعی ’اونٹ پہاڑ کے نیچے آنے‘ والی مثل استعمال نہیں کریں گے اور نہ ہی ’کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں بڑی‘ کی بھپتی کسیں گے۔
لیکن کیا کریں صاحب، اب ہم کراچی والے ہیں، تو اس لیے یہ خبر پڑھنے کے بعد کچھ اور باتیں بھی ذہن میں آنے لگیں اور ذہن کا کیا ہے، اسے سوچنے سے گلی، محلے کا کوئی لفنگا روک سکا ہے اور نہ ایوانِ اقتدار کا کوئی ظالم! سو ہمارے ذہن میں یکایک شہر بھر میں قائم وہ ’دفاتر‘ آگئے، جو 3 برس قبل ’تھے‘ ہوگئے! یعنی حکومت کی طرف سے چُن چُن کر اِن کا نام ونشان تک مٹا دیا گیا، لیکن بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر دفاتر سے اکثر کراچی واسیوں کی کچھ زیادہ اچھی یادیں جڑی ہوئی نہ تھیں۔
لوگ سوچتے ہیں کہ کاش، آپ نے ان گلی کوچوں میں کی جانے والی ’غلطیوں‘ پر بھی کبھی اسی طرح سرِ تسلیم خم کیا ہوتا، تو شاید پستی کے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، جو گزشتہ کچھ برس سے مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ آپ لاکھ اِس بُرے تاثر کو پروپیگنڈا قرار دیں، لیکن کراچی کے گلی محلوں کی صدائیں تو آج بھی یہ بتاتی ہیں کہ کمی بیشی تو ضرور ہوسکتی ہے، لیکن گڑبڑی تو تھی اور کافی زیادہ تھی۔ سنی سنائی پر ہم بھی نہیں جاتے، لیکن جو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، اس کا کیا کیجیے گا؟
اس صورتِ حال کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ ہم نے ’ایم کیو ایم‘ کے حریف امیدواروں کو ہمیشہ ان کے جھنڈے تلے ہونے والا جبر و تشدد ہی جواز بنا کر ووٹ مانگتے ہوئے سنا ہے۔ ان کے منشور پر تو کبھی بات ہی نہیں ہوئی! اور سچ پوچھیے، تو آج اگر ان کے سارے زوال، ٹوٹ پھوٹ اور شکست وریخت کو مختصر لفظوں میں بیان کریں، تو اس میں سب سے زیادہ ان کی یہی دھمکیاں، تشدد اور بدتمیزیاں ہی دکھائی دیں گی!
جب پڑھے لکھے نوجوانوں کی ’تحریک‘ کہی جانے والی تنظیم کے ’یونٹ‘ اور ’سیکٹر‘ کا نام سن کر ہمارے ذہن میں ’ایلے میلے‘ لوگ آئیں، تو پھر آپ اس کا کیا عذر تراشیں گے؟
فقط یہ کہہ دینا بالکل کافی نہیں کہ انہیں حالات کے جبر نے اسلحہ پکڑا دیا، یا آپ کے اچھے اور تعلیم یافتہ افراد حالات کے جبر کے تحت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے، کیونکہ ان گھرانوں کے تو مرد بھی پولیس، تھانے، مقدموں اور عدالتوں کے چکر سے بہت دُور رہے، لیکن سیاسی وابستگی کے سبب ان خاندانوں کی خواتین کو یہ سب بھگتنا پڑ رہا تھا چنانچہ ’تحریک‘ سے صاف لوگ پیچھے ہوئے، تو ان کی خالی جگہ پھر ایسے ہی ’دبنگ‘ اعصاب کے کم یا غیر تعلیم یافتہ ’لڑکوں‘ نے پُر کی، جنہوں نے پھر وہ سب کیا، جو پوری ’ایم کیوایم‘ کو لے ڈوبا۔
جناب! یہ آپ کا نقظہ نظر تو ضرور ہوسکتا ہے، لیکن اگر کوئی غلط کام ہوا ہے تو اصولی طور پر غلط کے ’جوابی غلط‘ کو بھی ٹھیک نہیں کہا جاسکتا۔ مرکزی سطح پر یہ کہنے کے باوجود کہ تشدد کبھی بھی ہماری ’پالیسی‘ نہیں رہا، اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ان کے لڑکے اس لَت میں بہت بُری طرح ملوث ہوئے! ایک طرف کہاں ’برابری‘ کا یہ انداز کہ ’کارکن‘ کی سطح سے لے کر وزیر اور ’قائد‘ تک سب ہی ’بھائی‘ کہلائیں، دوسری طرف یہ عالم کہ ’برادرانِ یوسف‘ کی طرح ’مہاجر قوم‘ کی تاریخ میں ان ‘بھائیوں’ کا ذکر کچھ ویسے ہی ‘کارناموں’ کے سبب ہونے لگے۔
کراچی کے ’شہرِ قائد‘ کہلانے کا سبب پاکستانی قوم کے ’باپ‘کے لیے ایک کتاب ‘میرا بھائی’ اگرچہ ان کی سگی بہن نے لکھی، لیکن کراچی کی تاریخ میں ’باپ‘ اور ’بھائی‘ کے تذکرے ان کے متنازع معنوں میں بھی معروف ہوگئے۔
وسیم اختر صاحب! کیا واقعی اب آپ لوگ اپنی ہمالیہ جیسی اس غلطی کو دل سے مان چکے ہیں؟ کیا آپ بنا کسی دباﺅ کے اپنے عوام سے بھی ایسی ہی معافی مانگ سکتے ہیں؟ باوجود اس کے کہ نہ لوگوں پر کسی طاقتور کا ہاتھ ہے اور نہ ہی وہ بڑے بڑے گھروں کے مکین ہیں۔ کیا آپ مقدمے کا اندراج ہوئے بغیر انہی محلوں میں جاکر بالکل ایسے ہی معذرت کرسکتے ہیں جیسے حسنین حیدر کے گھر پر جاکر کی؟ کیونکہ روایات تو یہ ہیں کہ آپ کی ‘غلطیوں’ پر چوں چرا کرنے کے نتائج اچھے نہیں ہوتے تھے، تو مقدمہ درج کرانا تو بہت دُور کی بات ہے۔
پھر آپ کو ووٹ دے کر آپ ہی کے کارکنوں سے بقرعید پر قربانی کی کھالیں چھپالینے والے تو اب بھی شہر کے غریب اور متوسط طبقے میں گنے جاتے ہیں، اور وہ تو اب تک رہتے بھی انہی گلیوں اور چھوٹے گھروں میں ہیں، جہاں کبھی آپ کے اکثر ’رہنما‘ زندگی کیا کرتے تھے۔
کیا آپ لوگ کراچی کے ان نوجوانوں سے بھی معافی مانگیں گے، جنہیں معمولی تکرار کے نتیجے میں آپ کے ’یونٹ‘ کی آشیرباد سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے کتنوں کو ’سیدھا‘ کرنے کے لیے آنکھیں بھی دکھانا پڑی تھیں، اور کتنوں کو بات تھپڑ اور گریبان تک پہنچے کے بعد ’سمجھ‘ میں آئی تھی!
کیا آپ ان لوگوں سے بھی معذرت کے طلبگار ہوں گے جنہوں نے آپ کے زبردستی ’فطرے‘ کی پرچیاں پکڑا دینے پر بعد میں الگ سے فطرہ ادا کیا ہوگا اور سب سے بڑھ کر مجموعی طور پر اس مہاجر قوم سے ہاتھ جوڑیں گے، جس کی شناخت کے نام لیوا آپ ہوئے، مگر آپ کے انہی کرتوتوں کے سبب آج وہ نجی محفلوں میں بھی اپنی شناخت کی بات نہیں کرسکتے!
وہ اس موضوع پر لب کشائی کرتے ہیں تو ان کے سامنے آپ کے یہ اعمال نامے کھولے جانے لگتے ہیں۔ کیا آپ ہماری سیاست سے وہ داغ چھڑا سکتے ہیں کہ اب جو بھی ملک سے وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بات کرتا ہے تو ’بھتّے، امتحان میں نقل اور چائنا کٹنگ‘ دکھا کر کہا جاتا ہے ‘دیکھ لیا ’مڈل کلاسیوں‘ کو اسمبلیوں میں بھیجنے کا انجام!’
اگر آپ واقعی اس طرح معذرت طلب کریں گے اور اپنے ان خود سَروں اور بدتمیزوں کو بھی لگام دیں گے، جو ’لائن‘ کٹنے کے بعد بھی جوں کے توں آپ کے پرچم تلے ہی جمع دکھائی دیتے ہیں۔ اگر واقعی یہ سب ہوگا، تب ہی ہم کہیں گے کہ واقعی کسی بڑے باپ کے بیٹے نہ ہونے کے باوجود ہم سب بھی بھائی ہیں۔ اگر نہیں تو پھر صاحب ہمیں یہ کہہ لینے دیجیے کہ یہ صرف وقت، وقت کی بات ہے یعنی پرنالہ اب بھی وہیں ہی بہے گا!
تبصرے (5) بند ہیں