• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی منتظر

شائع January 25, 2020
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے مطابق تبدیلی کی شروعات پنجاب سے ہی ہوگی—تصویر: فیس بک
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے مطابق تبدیلی کی شروعات پنجاب سے ہی ہوگی—تصویر: فیس بک

لاہور: پنجاب میں جہاں حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی اور بیوروکریسی میں اختیارات کی جنگ شدت اختیار کرگئی ہے وہیں مسلم لیگ (ن) صوبے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت گرانے کے لیے درست وقت کی منتظر ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی حکمرانی وزیراعظم عمران خان کے لیے سردرد بن چکی ہے جن کی جانب سے انتظامی امور میں سیاسی کردار کو کم سے کم کرنے کے لیے چیف سیکریٹری میجر (ر) اعظم سلیمان، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس شعیب دستگیر اور دیگر اعلیٰ بیوروکریٹس کو مکمل اختیارات دینے کے اقدام نے بحران میں اضافہ کردیا ہے۔

اسی دوران پنجاب کے جنوبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 20 اراکین اسمبلی پر مشتمل 'ناراض' گروہ سامنے آیا تھا جو اپنے متعلقہ حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم چاہتے تھے اور اپنے مرضی کے افسران کو اختیار منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

کہا جارہا ہے کہ اس گروپ کا اس طرح سامنے آنا وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا منصوبہ تھا جو اپنے آپ کو صوبے کا 'بااختیار وزیراعلیٰ' ثابت کرنے کے لیے بیوروکریسی کے اختیارات میں مداخلت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف میں 'ناراض' اراکین اسمبلی سامنے آگئے

اس ضمن میں پی ٹی آئی کے ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’عثمان بزدار جنوبی پنجاب کے اراکین صوبائی اسمبلی کو پابند کرنے کے لیے صوبے کے معاملات میں اپنا حکم منوانا چاہتے ہیں‘۔

حالانکہ عثمان بزدار ڈیڑھ برس قبل منصب سنبھالنے کے بعد سے کبھی بھی طاقتور وزیراعلیٰ بن کر سامنے نہیں آئے لیکن وزیراعظم کا پنجاب کے معاملات صوبائی بیوروکریسی کے ذریعے چلانے کا مبینہ اقدام عثمان بزدار اور حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی کے لیے اچھی علامت نہیں تھی۔

پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے علاوہ گورنر پنجاب اور حکمراں جماعت کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) بھی یہ شکایت کرتی نظر آئی کہ اسے انتظامی معاملات میں کوئی اختیار حاصل نہیں۔

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین نے مسلم لیگ (ق) کو ان کی اکثریت والے اضلاع میں انتظامی معاملات میں شریک کرنے کی یقین دہانی کروائی اور اسی جماعت کے رہنما مونس الٰہی حکومت کے وعدوں سے مطمئن بھی نظر آئے جس کے بعد اتحادی اس وقت خاموش ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) پنجاب کی 'اعلیٰ بیوروکریسی' میں اپنے حصے کیلئے کوشاں

دوسری جانب گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ایک نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ انہیں بیوروکریسی سے مسائل ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’جب میرے دفتر سے کسی نے کسی معاملے پر رابطہ کیا تو بیوروکریسی نے جواب دینے کی بھی زحمت نہیں کی، میں حیران ہوں کہ جب کوئی وزیر بیوروکریسی سے کسی کام کا کہتا ہے تو وہ غیر قانونی بن جاتا ہے اور جب بیوروکریسی ایسا کرتی ہے تو وہ جائز ہوتا ہے‘۔

اس حوالے سے ایک صوبائی بیوروکریٹ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس ’اوپر‘ سے احکامات ہیں کہ کوئی سیاسی دباؤ نہ لیا جائے اور میرٹ برقرار رکھا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون سازوں کا اصل کام پالیسی بنانا ہے، انہیں ایس ایچ او، پٹورایوں یا دیگر عہدیداروں کے تبادلے یا تعیناتی کے لیے بیوروکریٹس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے'۔

ادھر پارٹی ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی جماعت کے کسی شخص سے تبدیل کرنے کے متحمل نہیں ہیں، عمران خان گھمبیر صورتحال میں ہیں کہ اگر عثمان بزدار کو ہٹایا تو پنجاب میں انتہائی معمولی اکثریت ہونے کی وجہ سے اعتماد کا ووٹ کون حاصل کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے ناراض مسلم لیگ (ق) کو راضی کرلیا

ذرائع کا کہنا تھا کہ 'دوسری صورت میں وہ اتحادی جماعت کے چوہدری پرویز الٰہی کا انتخاب کرسکتے ہیں لیکن یہ فیصلہ انہیں اس مجبوری میں کرنا پڑے گا کہ وہ کسی بند گلی میں نہ پھنس جائیں'۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحس چوہان نے اس بات پر زور دیا کہ عثمان بزدار پنجاب کے ’بااختیار‘ وزیراعلیٰ ہیں اور بیوروکریسی ان کے ماتحت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا اقدام

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے ایک روز قبل کہا تھا کہ وہ ’دوسروں‘ سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ان کا اشارہ مسلم لیگ (ق) کی جانب تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ان ہاؤس تبدیلی جمہوری عمل ہے‘۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی سمیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ جس طرح مسلم لیگ (ق) نے بدعنوانی، پی ٹی آئی کے مجوزہ بلدیاتی نظام اور دیگر معاملات پر سوال اٹھائے ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ وہ جلد اتحاد سے الگ ہوجائے گی اور اگر وہ اتحاد سے الگ ہوجاتی ہے تو ہم اس کے ساتھ اچے تعلقات بنانا چاہیں گے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ’یہ چند ماہ‘ کا معاملہ ہے کہ صوبائی حکومت گر جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی طاقتور حکومت نتائج کیوں نہیں دے پارہی؟

ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو گھر واپس بھیجا گیا تو اس کے بعد وفاق میں بھی یہی ہوگا۔

اس کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے اس تاثر کو بھی رد کردیا کہ منحرف رہنما چوہدری نثار علی خان آئندہ چند ماہ میں پنجاب حکومت کی سربراہی کے لیے ان کی جماعت کا انتخاب ہوسکتے ہیں۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ’پنجاب آئندہ چند ماہ میں میدانِ جنگ بن جائے گا اور تبدیلی کی شروعات یہیں سے ہوگی، ہم انتظار کرنے والا کھیل کھیل رہے ہیں اور صحیح وقت پر اپنے پتے ظاہر کریں گے‘۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024