• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

زیرحراست سابق کرنل انعام الرحیم گھر پہنچ گئے

شائع January 25, 2020
سابق کرنل کو 17 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا—فائل فوٹو
سابق کرنل کو 17 جنوری کو حراست میں لیا گیا تھا—فائل فوٹو

اسلام آباد: عسکری حکام کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد سابق کرنل ایڈووکیٹ انعام الرحیم راولپنڈی میں اپنے گھر پہنچ گئے۔

جب کرنل (ر) انعام الرحیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ انہیں بغیر کسی باضابطہ الزام کے اٹھایا گیا تھا اور انہیں چھوڑ دیا گیا کیونکہ انہیں حراست میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

لاپتہ افراد کے کیسز کی پیروی کرنے والے کرنل (ر) انعام الرحیم نے جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: وزارت دفاع سابق کرنل انعام الرحیم کی مشروط رہائی پر رضامند

واضح رہے کہ انہیں 17 دسمبر کو عسکری حکام کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، جس کے بعد سینئر وکلا احسن الدین شیخ، بریگیڈیئر (ر) واصف خان نیازی، توفیق آصف، انور ڈار، رانا عبدالقیوم اور میجر(ر) وحید نے ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

جس پر لاہور ہائیکورٹ نے عسکری حکام کو انعام الرحیم کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم وزارت دفاع نے عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

بعد ازاں 22 جنوری کو اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ کو بتایا تھا کہ حکومت انعام الرحیم کی صحت کو دیکھتے ہوئے انہیں رہا کرنا چاہتی ہے۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے 9 جنوری کے فیصلے کے خلاف حکومتی درخواست پر سماعت کی تھی۔

واضح رہے کہ 9 جنوری کو عدالت عالیہ کے راولپنڈی بینچ نے انعام الرحیم کے بیٹے حسنین امام کی درخواست پر سابق کرنل کی حرست کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

عدالت عظمیٰ نے اپنے 2 رکنی فیصلے میں کہا تھا کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ چونکہ زیرحراست وکیل کی طبیعت ٹھیک نہیں لہٰذا اسی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ انہیں رہا کیا جائے لیکن اس کے لیے پاسپورٹ جمع کرانا ہوگا۔

اس کے بعد زیرحراست وکیل کو سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) کو اپنا پاسپورٹ جمع کروانے پر رہا کردیا گیا جبکہ وہ انکوائری اور انویسٹی گیشن میں تعاون جاری رکھیں گے۔


یہ خبر 25 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024