• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

آپ ’خواجہ سرا‘ کا مطلب جانتے ہیں؟ اس اصطلاح کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

شائع January 25, 2020 اپ ڈیٹ January 28, 2020

کچھ برقی اور ورقی لطیفے۔ آج کسی چینل کا نام کیا دینا، لیکن خبر عجیب ہے اور سوشل میڈیا پر اس کا چرچا بھی ہے۔ خبریں سنانے والی خاتون نے یہ تشویشناک خبر دی کہ چمن میں خواجہ سرا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے 5 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ کون سی وبا ہے جو بچوں کو ہلاک کررہی ہے!

خاتون نے پہلے تو کھُسرے کی وبا کہا، پھر خیال آیا کہ کھسرا کہنے سے اس مخلوق کی دل آزاری ہوگی، چنانچہ کھسرے کا مہذب ترجمہ کردیا: خواجہ سرا۔ یہاں یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ خاتون نیوز ریڈر کو یہ معلوم تھا کہ کھسرے کا متبادل خواجہ سرا ہے ورنہ اب یہ لفظ عام نہیں رہا، زیادہ سے زیادہ ہیجڑا یا مخنث کہہ دیا جاتا ہے جس وبا کا ذکر تھا وہ خسرہ ہے۔ لیکن یہ ’خواجہ سرا‘ کیا ہے؟ خواجہ تو ایک معزز لقب ہے اور ’سرا‘ محل یا حویلی کو کہتے ہیں۔

’خواجہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’خواجگان‘ ہے۔ خواجہ سردار یا آقا کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین۔ اور خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔ یہ امیروں اور بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی بھی کرتے ہیں اور زنانے میں آنے جانے کی انہیں اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کو محلّی بھی کہتے ہیں۔

فارسی میں ایک لفظ ہے ’خواجہ تاش‘۔ اس کا کوئی تعلق تاش کھیلنے سے نہیں، بلکہ ایک ہی آقا کے نوکروں میں سے ہر ایک خواجہ تاش کہلاتا ہے۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ہے ’غلام قادر روہیلہ‘۔ روہیلوں نے روہیل کھنڈ میں اپنا اقتدار مضبوط کرلیا تھا تو مغلوں کو خطرہ محسوس ہوا۔ مغل بادشاہ نے روہیلوں پر حملہ کرکے قتلِ عام کیا، لیکن ایک بچے پر ترس آگیا تو اسے محل میں لاکر پرورش کی گئی۔ اس بچے کا آنا جانا محل سرا میں تھا چنانچہ کسی نے شکایت کردی کہ شہزادیاں اس سے بے تکلف ہورہی ہیں۔ مغل بادشاہ نے اسے نامرد کرادیا۔ وہ کسی طرح نکل بھاگا اور پٹھانوں کو جمع کرکے محل پر چڑھائی کردی۔ تیموری خون ٹھنڈا پڑچکا تھا۔ غلام قادر نے خنجر سے مغل بادشاہ کی آنکھیں نکلوا دیں۔ اس نظم کا آخری شعر ہے

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

تفصیلات کے لیے پڑھیے علامہ اقبال کی نظم۔ غلام قادر نے ہیجڑا بنانے کا بدلہ لے لیا۔

یہ تو برقی لطیفہ تھا۔ اب ورقی لطیفوں کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کا ایک بڑا اخبار میرے سامنے ہے۔ ایک سرخی ہے ’تبدیلی کا آغاز اگلے ہفتے سے شروع ہوسکتا ہے‘۔ یعنی ’آغاز‘ اور ’شروع‘ شاید ہم معنیٰ نہیں۔کیا یہ ’ماہِ رمضان کا مہینہ‘ والی بات نہیں؟

ایک اور سرخی دیکھیے یا پڑھیے ’اشیائے ضرورت کی چیزیں سستی کی جائیں‘۔ اب چونکہ یہ ایک سیاستدان کا بیان ہے اس لیے اسے نظر انداز کردینا چاہیے۔ انہیں کیا معلوم کہ اشیا اور چیزیں ایک ہی بات ہے۔ ممکن ہے ان کے پاس یہ دلیل ہو کہ اشیا عربی کا لفظ ہے اور چیزیں ہندی کا، چنانچہ فرق تو ہوگیا ناں۔

ایک اور اخبار میں سرخی تھی کہ ’عمران خان نے حامی بھرلی‘۔ ہمارے صحافی بھائی کو علم نہیں ہوگا کہ ’حامی‘ بھری نہیں جاتی، اس کا مطلب حمایت کرنا ہے، اور جو چیز بھری جاتی ہے وہ ’ہامی‘ ہے۔ ہامی کا مطلب ہے ہاں کرنا، اور یہ ہندی کا لفظ ہے، جب کہ ’حامی‘ عربی کا ہے۔ بس ہائے حطی (ح) اور ہائے ہوز (ہ) کا فرق ہے جسے عوام کی زبان میں حلوے والی ’ح‘ اور ہاتھی والی ’ہ‘ کہتے ہیں۔ ’ہامی‘ کی جگہ ’حامی‘ کی غلطی بہت عام ہورہی ہے جیسے ’پروا‘ کے آخر میں زبردستی ’ہ‘ (پرواہ) ڈال دی جاتی ہے اور اس سے ’بے پرواہی‘ یا ’لاپرواہی‘ بنالیا گیا ہے جب کہ یہ ’بے پروائی‘ ہے۔

گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پر اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر نشین قبلہ ایاز اپنے انٹرویو میں بار بار ’پس منظر‘ کو ’پسے منظر‘ کہہ رہے تھے، یعنی س کے نیچے ’یا‘ لگا کر اسے ’پسے منظر‘ کردیا، جب کہ یہ ’پس۔ منظر‘ ہے۔ قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل کے قبلہ ہیں تو بہت پڑھے لکھے بھی ہوں گے۔ جب وہ تلفظ کی غلطی کریں تو ہم کس شمار میں! ہمارا بھی حق ہے، بس اتنی سی عرض ہے کہ ’پسے منظر‘ کا مطلب ہوگا منظر کے پیچھے۔ جب کہ اصل مطلب ہے ’پیچھے کا منظر‘۔

چرند و پرند کے بارے میں شاید ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’ر‘ پر زبر ہے، زیر نہیں۔ عام طور پر ان الفاظ کو ’ر‘ کے نیچے زیر کے ساتھ کہا جاتا ہے یعنی پرندہ بروزن درندہ۔ اور درندہ میں ’ر‘ کے نیچے زیر ہے۔ یہ زیر، زبر کا بگاڑ ٹی وی چینلز پر بڑھ گیا ہے۔ مثال کے طور پر چند الفاظ جن میں پہلا حرف بالکسر ہے (یعنی زیر ) لیکن زبر کے ساتھ ادا کیا جارہا ہے جیسے ہدایت، ملکیت، عندیہ، الحاق، انتشار وغیرہ۔ ان سب کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہے یعنی ہِدایت، مِلکیت۔ زیر زبر سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا اور بات سمجھ میں آجاتی ہے، بس زبان بگڑ جاتی ہے، اور نوجوان نسل جو سنے گی وہی کہے گی۔

’ہم شیر‘ فارسی کا لفظ ہے۔ ’شیر‘ دودھ کو کہتے ہیں۔ ہم شیر حقیقی بھائی اور رضاعی بھائی کے لیے آتا ہے جس نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہو۔ فارسی میں اس کا مونث ’ہم شیرہ‘ بنالیا گیا ہے اور ’خواہر‘ بہن وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

شادی کارڈوں پر بہن کی شادی کی اطلاع دینے کے لیے ’ہم شیرہ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا شِیر کی مونث شیرہ مناسب ہے؟ ’ہم شیرہ‘ کا مطلب تو یہ ہوا جس نے مل کر شیرہ پیا ہو۔ بہرحال یہ اصطلاح عام ہے چنانچہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ’خواہر‘ کے لفظ میں ’و‘ خاموش رہتا ہے اور اس کا تلفظ ’خاہر‘ ہوگا۔ جس طرح خویش، خواب وغیرہ میں بے چارہ ’و‘ خاموش رہتا ہے اور تلفظ خیش، خاب وغیرہ ہے۔ اوّل خویش بعدہٗ درویش کی مثال معروف ہے، یا ’رموز مملکتِ خویش خسرواں دانند‘۔ یعنی اپنی مملکت کے رموز سے حکمران ہی واقف ہوتا ہے، یا یوں کہیے کہ کبھی ہوتا ہوگا۔ اب تو خسروانِ وقت بے خبر ہی رہتے ہیں، دوسرا کوئی بتادے تو بتادے۔

’ہم شیر‘ کے علاوہ بھی ’ہم‘ کے ساتھ اور بہت سی تراکیب اردو میں عام ہیں جیسے ہم سبق، ہم عمر، ہم رنگ، ہم سفر، ہم طریق۔ ایک شعر سامنے آگیا ہے تو سن لیجیے

سخن وروں میں تو اے شاد تُو غنیمت ہے

کہ ہم طریق ہے اگلی زبان والوں کا

گزشتہ شمارے میں ’کلپ‘ اور ’کلف‘ کی بحث میں 2 الفاظ اَہار اور مانڈی چڑھانا آئے تھے۔ لغت کے مطابق اہار کا مطلب ہے نشاستے وغیرہ کی لئی پکا کر کاغذ اور وصلیوں پر پھیرتے ہیں۔ یعنی یہ کلف لگانے ہی کے معنوں میں ہے۔ یہ نشاستہ کپڑوں کو دیا جائے تو وہ اکڑ جاتے ہیں۔ لغت کے مطابق اب اہار کی جگہ بحذف الف یعنی ’ہار‘ بول چال میں زیادہ ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں تو زیادہ کیا کم بھی یہ اہار یا ہار بول چال یا تحریر میں نہیں ہے۔

درج بالا تحریر میں ایک لفظ وصلی آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے 2 کاغذوں کو جوڑ کر ایک مضبوط دفتی بنانا۔ مانڈی چڑھانا کا مطلب بھی کلف دینا ہے۔ مانڈی کا مطلب ہے پیچ (’پ‘ بالکسر) کلف، ماوا وغیرہ۔ ہندی کا لفظ ہے لیکن اب یہ بھی سننے پڑھنے میں نہیں آتا۔ البتہ ’مانڈا‘ اردو میں عام ہے اور حلوہ کے ساتھ آتا ہے یعنی ’حلوہ مانڈا‘۔ جن لوگوں کو مانڈا کا مطلب نہیں معلوم وہ بھی استعمال کرلیتے ہیں کہ حلوہ کے ساتھ ہے تو کوئی اچھی چیز ہی ہوگی۔

شب برأت کا مانڈا حلوہ بھی مشہور ہے۔ مانڈا کا مطلب ہے ایک قسم کی پتلی اور بڑی روٹی جو میدہ میں گھی ملا کر تندور میں پکائی جاتی ہے۔ آپ اس کو پراٹھا بھی کہہ سکتے ہیں جس کا جوڑ حلوے کے ساتھ ہے۔ ہوٹلوں میں حلوہ پراٹھا مل جاتا ہے اور یہ پراٹھا خوب بڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ نصف یا چوتھائی بھی مل جاتا ہے، پورا پراٹھا ایک آدمی کے لیے کھانا مشکل ہے۔

ایک اصطلاح ’زیروبم‘ کی عموماً سننے میں آتی ہے لیکن اس کا تلفظ غلط کیا جاتا ہے اور زیر بروزن دیر کیا جاتا ہے، جبکہ یہ ’زیر‘ بروزن کھیر ہے۔ دراصل یہ زیروبم ایک ساز کے نیچے اور اوپر کے سُر ہیں۔ زِیر (’ز‘ بالکسر) فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے مدھم آواز، دھیمی آواز، نیچا سُر۔ اور بم کا مطلب ہے اونچا سُر۔ ایک لطیفہ بھی ہے کہ ایک صاحب شاعری کی کتاب زیروبم لے کر جارہے تھے کہ پولیس نے پکڑ لیا۔ ان پر الزام تھا کہ کتاب میں ایسا بم بنانے کی ترکیب ہے جس کا نام ’زیرو‘ ہے اور یہ بالکل نئی قسم کا بم ہے۔ اب تھانے میں وضاحت کرتے رہیے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


اطہر ہاشمی

اطہر ہاشمی روزنامہ جسارت کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں اور زبان و بیان پر گہری گرفت رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

Khan Jan 25, 2020 11:59am
ایک نے تو چیف کی توسیع کو شیف کی توسیع کردیا تھا۔
طاہر یاسین طاہر Jan 25, 2020 04:27pm
بہت معلومات افزا مضمون ہے۔ اللہ رب العزت صاحبِ مضمون کی زندگی دراز کرے اور ان کے علم و قلم میں مزید برکت عطا فرمائے۔۔ آمین بحق رحمت اللعالمین
Naeem khan Jan 25, 2020 09:06pm
Nice article
یمین الاسلام زبیری Jan 26, 2020 01:06am
جہاں تک ٹی وٰی چینلوں پر اردو کا تعلق ہے تو میں اس میں ان چینلوں کے مالکان کو دوش دوں گا۔ یہ لوگ لگتا ہے اپنے کام کرنے والوں کی تربیت کا انتظام نہیں کرتے، اس سے معیار گر جاتا ہے، بلکہ گرتا ہی جارہا ہے۔ ٹی وی چینل ہی وہ ادارے ہیں جو اردو یا کسی بھی زبان کو بنا اور بگاڑ سکتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں چینل اس بات پر بہت ذور دیتے ہیں۔ مغربی ملکوں سے ہم بہت کچھ سیکھتے رہتے ہیں لیکن کام کی چیزیں کم ہی سیکھتے ہیں۔ ان ملکوں میں کسی بھی ادارے میں تربیت پر بہت ذور دیا جاتا ہے۔ ہر تین، چار مہینے کے بعد کوئی نہ کوئی تربیت ہو رہی ہوتی ہے۔ بہت سی باتیں لوگ پہلے سے جانتے ہیں لیکن یہ پھر بھی دہرائی جاتی ہیں۔ آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اوپر مضمون میں حاصل مطالعہ یہ جملہ ہے: زیر زبر سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا اور بات سمجھ میں آجاتی ہے، بس زبان بگڑ جاتی ہے، اور نوجوان نسل جو سنے گی وہی کہے گی۔
Emran Ali Shah Jan 27, 2020 12:48am
shadi card'on ni shadi "cards".
یمین الاسلام زبیری Jan 27, 2020 03:37am
ایمان علی شاہ صاحب ’شادی کارڈوں‘ بالکل درست ہے۔ آپ کااعتراض سمجھ میں آتا ہے کہ یہ انگریزی کا لفظ ہے۔ اردو میں آکر ایک تو یہ اردو کا ہوگیا ہے اور اردو کا ہی اصول لگے گا۔ دوسرے یا تو کارڈوں کہیں یا صرف کارڈ کہیں۔ اردو صرف و نحو میں مارکڈ اور ان مارکڈ اسم ہوتے ہیں اس اصول پر۔ یہاں اتنی تفصیل ہو نہیں سکتی اس لیے کوئی گرامر کی کتاب دیکھ لیں۔
HonorBright Jan 27, 2020 06:27pm
Thank you sir...i know i wont be able to remember the correct pronunciation of these much abused words but to be reminded of the ravages that are being done to our dear Urdu is precious moment of self-awareness.. main abhi bhi narazi ko narazgi hi bolta hoon..aur charand o parand chirind o parind hi rehen ge.. language is the latest casualty in our journey to decline
Nazar Hussain Kazmi Jan 28, 2020 09:55pm
اس دور میں کون ان باتوں کا خیال رکھتاہے ۔ ہم لسانی سے زیادہ مشینی بن چکے ہیں ۔ ریڈیو بنیادی اکادمی تھی جو بہت پیچھے رہ گیاہے۔ ٹی وی بھی باقیات میں شمار ہونے لگا ہے ۔ میڈیا کے کسی بھی کورس میں زبانی اور ادائیگی کا کورس شامل نہیں ۔ علم سے زیادہ بات مارکیٹ کی ہورہی ہے۔ سب کچھ کمرشل ہوچکاہے۔
مزمل حسن Jan 28, 2020 10:40pm
اردو زبان کی زوال کی دو بڑی وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو پاکستان میں بہت کم لوگ یہ زبان بولتے ہیں دوسرا انگریزی زبان اردو کی جگہ تقریبا لے چکی ہے، بلکہ اب تو بہت سے والدین بچوں کے ساتھ صرف انگریزی ہی بولتے ہیں!!

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024