20 سیکنڈ میں لوگوں کی سوچ بدلنے والا لفٹ آپریٹر
آپ اگر پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ نمبر ایک سے اندر داخل ہوں تو ریڈ کارپیٹ پر چلتے ہوئے سیکیورٹی اسکینر سے گزرنے کے بعد سامنے 3 وی آئی پی لفٹ نظر آئیں گی۔ اکثر و بیشتر ارکانِ اسمبلی اسی دروازے سے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہیں، لیکن عمارت میں داخل ہونے کے لیے ایک گیٹ اور بھی ہے، جسے گیٹ نمبر 5 کہا جاتا ہے، وزیراعظم، وفاقی وزرا ، قائد حزب اختلاف یا اس طرح کی اہم شخصیات اسی دروازے سے پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر داخل ہوتی ہیں۔
گیٹ نمبر 5 ہو یا گیٹ نمبر ایک، عمارت میں اوپر جانے کے لیے مختلف جگہوں پر لفٹیں لگی ہوئی ہیں، جو لوگ متواتر پارلیمنٹ آتے جاتے ہیں انہیں یہاں کی لفٹوں اور دیگر عمارتوں کی لفٹوں میں ایک فرق واضح نظر آئے گا۔ یہ فرق جدید ٹیکنالوجی یا مہنگے سجاوٹی چیزیں نہیں بلکہ کاغذ کا ایک معمولی سا ٹکڑا پیدا کرتا ہے، جس پر انہیں بڑی بڑی ہستیوں کے قیمتی اقوال پڑھنے کو ملتے ہیں۔
جو لوگ روزانہ ان لفٹوں میں سوار ہوکر اپنے دفاتر جاتے ہیں یا سینیٹ و قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے یا کور کرنے آتے ہیں، وہ لفٹ میں داخل ہونے کے ساتھ اپنی نظریں سیدھا لفٹ بٹنوں کے اوپر دوڑا دیتے ہیں، جہاں سوا انچ بائی ساڑھے 3 انچ کے کاغذ پر خوش خطی سے قولِ زریں لکھا ہوتا ہے۔ وہ اسے پڑھتے ہیں اور اس میں دیے گئے پیغام کے بارے میں سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ منزل آجاتی ہے اور وہ لفٹ سے باہر نکل جاتے ہیں۔
ظفر اقبال نامی ایک لفٹ آپریٹر گزشتہ 17 برس سے یومیہ کی بنیاد پر یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں، اور حیران کُن بات یہ ہے کہ 2003ء سے اب تک وہ ہر ایک پرچی کو نمبر بھی الاٹ کرتے آئے ہیں۔ 56 سالہ ظفر اقبال اپنے اس کام کو فرض سمجھ کر بلاناغہ انجام دیتے ہیں۔ اچھی باتوں میں یقین رکھنے والے لوگ نہ صرف ان کے اس کام کو سراہتے ہیں بلکہ بعض اوقات کوئی انعام بھی دے جاتے ہیں۔
’سابقہ حکومت میں خواجہ آصف وزیر پانی و بجلی تھے، انہوں نے لفٹ آپریٹر سے پتا کیا کہ یہ پرچی کون لکھتا ہے‘ ظفر اقبال مجھے بتا رہے تھے کہ اس وقت میری ڈیوٹی کسی اور لفٹ پر تھی۔
ظفر نے بتایا کہ ’مجھے جیسے ہی پیغام ملا تو میں پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود خواجہ صاحب کے دفتر پہنچا، انہوں نے میرے کام کی تعریف کی اور کہا کہ اقوال والی جو پرچیاں اب تک لکھی گئی ہیں، کیا وہ میرے پاس موجود ہیں؟ میں نے کہا، جی ہاں وہ سارا ریکارڈ میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ سُن کر انہوں نے کہا کہ ’آپ مجھے ان کی نقول فراہم کریں تو نوازش ہوگی‘، سو میں نے انہیں وہ لا کر دے دیں۔ اب تو اتنا مواد ہوگیا ہے کہ اقوال کا انسائیکلوپیڈیا بن سکتا ہے، قومی اسمبلی کے ایک افسر مجھے یہ بھی پیش کش کرچکے ہیں کہ اگر میں ان اقوال زریں پر مشتمل کتاب چھپواؤں تو اس کے اخراجات وہ دینے کو تیار ہیں۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کون سا لمحہ تھا، جب انہیں یہ خیال آیا کہ اچھی بات یا قول زریں کی پرچی لفٹ کے اندر لگائی جائے، اور وہ بھی ہر روز نئے قول کے ساتھ؟‘
وہ بڑے فخر سے مجھے بتانے لگے کہ، ’اس سے پہلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویزن میں ایڈہاک پر لفٹ آپریٹر تھا، 2003ء میں جب یہاں جگہ خالی ہوئی تو میرا تبادلہ یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں کردیا گیا، کام کے دوران میں نے یہ پایا کہ لوگ لفٹ میں سوار ہونے کے ساتھ کسی کی غیبت شروع کردیتے ہیں یا پھر کسی کو گالی دے رہے ہوتے ہیں، میں نے سوچا کہ ایسا کیا کام کیا جائے کہ لوگ 15 سے 20 سیکنڈز کے لیے ہی سہی کسی طرح اس گناہ سے بچ جائیں۔ کچھ دن بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ایک چھوٹی سی پرچی پر ایک قول لکھوں گا اور لفٹ کے آپریٹنگ بٹنوں کے اوپر چسپاں کردوں گا۔‘
ظفر اقبال بتاتے ہیں کہ ’یہ کام شروع کرنے سے پہلے میں نے ایک پرچی پر لکھا ’آج کی ایک اچھی بات‘ 4 سے 5 دن یہ پرچی لفٹ کے اندر لگی رہی، روزانہ لفٹ میں سوار ہونے والوں میں سے ایک نے ایک دن بیزارگی سے پوچھ ہی ڈالا کہ ‘آج کی ایک اچھی بات کا کیا مقصد ہے’ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ لوگ اس پرچی کو صرف دیکھتے نہیں بلکہ پڑھتے بھی ہیں۔ اس دن کے بعد سے میں نے اقوال کی پرچیاں لگانے کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔‘
ظفر اقبال بتاتے ہیں کہ ’2234 کے قریب اچھی باتوں کی یہ پرچیاں میرے پاس موجود ہیں، اکثر و بیشتر لفٹ میں آنے والے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ پرچی روزانہ تبدیل نہ کروں، کیونکہ اگر ہم کبھی پارلیمنٹ نہ آئیں تو ایک اچھی بات سے محروم ہوجاتے ہیں،‘ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ جب لوگ میرے لگائے ہوئے اقوال زریں پڑھتے ہیں، چاہے وہ اس میں کہی جانے والی بات پر عمل نہ بھی کریں، لیکن تھوڑی دیر کے لیے ایک اچھے احساس کی تازگی کو تو ضرور محسوس کرتے ہیں۔’
ظفر اقبال کے مطابق وہ سوچ بچار کے بعد 80 سے 90 اقوال میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں، تاکہ بات ایسی ہو کہ دل کو لگے۔ ان بیتے ہوئے برسوں میں اپنی اقوال کی پرچیوں کے پڑھنے والوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ، ’ایک دن میں نے حسبِ عادت ایک قول کی پرچی لگائی ہوئی تھی، جس پر کسی انگریز کا قول ’اگر پرانے کوٹ سے کام چل جائے تو نئے کوٹ کے پیسوں سے کتاب خرید لیا کرو‘ نقل کیا ہوا تھا، کچھ دن بعد خالد محمود نامی پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک افسر نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ ظفر تمہاری اس پرچی نے میری زندگی بدل دی۔
میں حیران تھا کہ اس پرچی میں ایسا کیا تھا، انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس مطالعے کا وقت ہوتا تھا لیکن جیب میں پیسے نہیں ہوتے اور جب پیسے ہوتے تو وقت نہ ہوتا، جس دن تمہاری وہ نئے کوٹ خریدنے کے بجائے کتاب خریدنے والی انگریز کی نصیحت کی پرچی پڑھی تھی تو اتفاق تھا کہ اس دن میرے پاس پیسے بھی تھے اور وقت بھی تھا۔ میں اس دن بازار گیا اور کتاب خرید لایا، اور آدھی کتاب ایک رات میں ہی پڑھ لی، اس کتاب نے میرے احساسات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
ظفر اقبال بچپن سے ڈائری لکھ رہے ہیں، زندگی میں جو اچھا دیکھا اُسے لکھنا کبھی نہیں بھولے، اور مسلسل لکھنے کی عادت اب ایک ایسے عمل میں تبدیل ہوگئی ہے کہ وہ روزانہ ایک نئی بات لکھ کر لاتے ہیں۔ ڈیوٹی پر پہنچتے ہی لفٹ میں وہ کسی بڑی شخصیت کے قول کی پرچی چسپاں کرتے ہیں اور اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اوپر لے جانا اور نیچے لے آنا تو ان کام ہے، لیکن اپنے اس بظاہر چھوٹے عمل سے وہ لوگوں کے خیالات اور سوچ کو وسیع و بُلند کرنے کا بھی کام انجام دیتے ہیں۔ لفٹ میں آتے جاتے لوگوں کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں وہ بات رہ جاتی ہے جو ضرور کسی نہ کسی خیر کا سبب بنتی ہوگی۔
پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے 446 ارکان ہیں، یہ ارکان اس ملک کی پالیسی اور قانون بنانے کا کام کرتے ہیں، یومیہ درجنوں افسران قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے بھی اس عمارت میں آتے ہیں، دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری ہوں تو سینکڑوں کی تعداد میں اجلاس کو دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
ظفر اقبال کے چسپاں کردہ یہ اقوال ان سب کی نظروں سے گزرتے ہیں، لیکن گزشتہ 17 سال سے اس شخص نے جس کام کو خود سے اپنے ذمے لیا اس میں انہوں نے ایک دن بھی کوتاہی نہیں کی، لیکن یہ ہمارے منتخب نمائندے، افسران اور اشرافیہ کے لوگ اضافی کام تو درکنار کرتے ہی ہیں لیکن اپنے حصے کے کاموں میں بھی کوتاہی برتتے ہیں۔ اگر وہ ظفر اقبال کے کردار کو ہی دیکھ لیں تو شاید اپنے رویے پر نظرثانی کرلیں۔
لفٹ آپریٹر ظفر اقبال نے 17 سال پہلے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اگر وہ ایک قول کی پرچی کے ذریعے لوگوں کو 20 سے 30 سیکنڈ کے لیے فضول باتیں کرنے سے بچاسکتا ہے تو اس ملک کے قانون ساز اور پالیسی ساز کیا کچھ نہیں کرسکتے، بات صرف یہ ہے کہ ارادے کی پختگی ہو تو کیا نہیں ہوسکتا؟ اگر ایک لفٹ آپریٹر لوگوں کی سوچ کے زاویے بدلنے کی کوشش کرسکتا ہے تو پھر میں اور آپ ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ اگر وقت ملے تو اس بات پر ضرور سوچیں، شاید ہم 20 سیکنڈ کے لیے ہی سہی لوگوں کے لیے سراپا خیر بن جائیں!
تبصرے (25) بند ہیں