آئی ڈراپس سے کئی مریض 'بصارت' سے محروم، معاملے کی تحقیقات کا حکم
اسلام آباد: حکومت اور الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال کی انتظامیہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں، جس میں بڑی تعداد میں مریضوں کی بینائی مبینہ طور پر آنکھوں کے قطرے ڈالنے سے محروم ہوگئی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلوکوما کے آپریشن کے لیے جانے والے مریضوں نے الزام لگایا کہ 80 مریض بینائی سے محروم ہوگئے، تاہم ان الزامات کے جواب میں ہسپتال انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ آنکھوں کے قطرے ڈالنے کے بعد مریضوں کی حالت بگڑی جبکہ ایک خاتون بصارت سے محروم ہوگئیں۔
اس معاملے پر آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں بطور سب انسپکٹر کام کرنے والے 53 سالہ منظور احمد کیانی نے ڈان سے گفتگو کے دوران بتایا کہ 8 جنوری کو ان کا گلوکوما کا آپریشن کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بینائی کی کمزوری کی 6 علامات
گلوکوما آنکھ کی حالت کا ایک گروپ ہے جو بصری عصب (آپٹک نرو) کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ اس کی درستی اچھے بینائی کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'آپریشن کے بعد میری آنکھوں میں قطرے (آئی ڈراپس) ڈالے گئے، مجھے نہیں معلوم کہ ان آئی ڈراپس میں کیا شامل تھا کیونکہ مجھے سخت انفیکشن ہوا اور میں اپنی بینائی سے محروم ہوگیا، (یہی نہیں بلکہ) میرے برابر والے بستر پر موجود مریض کے ساتھ بھی یہی ہوا'۔
واضح رہے کہ منظور احمد کیانی کے 6 بچے ہیں اور ان کا سب سے چھوٹا بچہ 9 سال کا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے نے نہ صرف ان کی زندگی کو مشکل بنا دیا بلکہ ان کے بچوں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ٹریفک سارجنٹ ہوا کرتا تھا لیکن اب میں دوبارہ دفتر جانے کے قابل نہیں ہوسکتا، میں اور میرے اہل خانہ اس کے لیے تیار نہیں تھے اور ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم کیا کریں گے۔
ادھر سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے بھی اس واقعے کے خلاف بات کی کیونکہ ان کے حلقے کی ایک خاتون بھی بصارت سے محروم ہوگئیں۔
دوسری جانب رابطہ کرنے پر الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال کے میڈیا کوآرڈینیٹر مرزا ریاض بیگ نے ڈان کو بتایا کہ یہ الزامات غلط ہیں اور 80 مریضوں نے اپنی بینائی نہیں کھوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹھیک بینائی کے باوجود آنکھوں کا دھندلانا سنگین بیماری کی علامت
انہوں نے کہا کہ 'ہم روزانہ تقریباً 250 آپریشنز کرتے ہیں اور صرف 8 مریضوں کو آئی ڈراپس سے اثر پڑا، ان میں سے ایک خاتون اپنی بینائی سے محروم ہوئیں جو سابق وزیراعظم کے حلقے سے تعلق رکھتی ہیں'۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیگر مریضوں کی بینائی مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکی تھی لہٰذا ہم نے انہیں دوبارہ بلایا اور علاج کے لیے انہیں داخل کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کیوں ہوا (تاہم) میڈیکل انویسٹی گیشن کے بعد ہم وجہ بتانے کے قابل ہوں گے'۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہسپتال اپنے 70 فیصد مریضوں کو مفت علاج فراہم کررہا، یہاں صرف 10 فیصد مریض علاج کے لیے ادائیگی کرتے کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور اسی لیے وہ مفت علاج کو منع کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں تو کسی کو ہسپتال کے ارادوں پر شک نہیں کرنا چاہیے، جو آئی ڈراپس ڈالے گئے وہ درآمد شدہ تھے جبکہ ہمیں ماضی میں کبھی ایسی شکایات نہیں ملی'۔
علاوہ ازیں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عاصم رؤف نے ڈان سے بات کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: لینس کے ساتھ یہ غلطی بینائی سے محرومی کا خطرہ بڑھائے
انہوں نے کہا کہ 'میں نے فارمیسی سروس ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھے اور واقعے کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جمع کروائے'۔
دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی نہیں سنا کہ آنکھوں کے قطروں سے بینائی چلی گئی۔ ساتھ ہی ڈاکٹر عاصم رؤف کا کہنا تھا کہ عام طور پر لوگوں کو قطروں سے الرجی ہوتی ہے لیکن وہ کچھ دن بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔