امن و استحکام کے بغیر معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا جبکہ امن و استحکام کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے 50ویں سالانہ اجلاس کے خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'جب میں وزیر اعظم بنا تو اگلے 4 برسوں میں پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا اعلان کیا جس کے لیے خیبر پختونخوا کے ہمارے تجربے کو استعمال کیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'درخت لگانا ہمارے لیے دو معنوں میں ضروری ہے، ایک تو گلوبل وارمنگ اور دوسرا شہروں میں آلودگی خاموش قاتل بن گئی ہے جس کے لیے ضروری ہے، بدقسمتی سے شہروں کو آلودگی سے بچانے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں تھا خاص کر لاہور جہاں آلودگی کی سطح بھارت کے دہلی کی طرح بڑھ گئی ہے، جبکہ لاہور میں گزشتہ 10 برسوں میں 7 فیصد درختوں کو کسی وجہ سے کاٹ دیا گیا'۔
یہ بھی پڑھیں:اب امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے، وزیر اعظم
'ہم کسی اور تنازع کا حصہ نہیں ہوں گے'
وزیراعظم نے کہا کہ 'جب تک امن و استحکام نہ ہو آپ معیشت کو بہتر نہیں کر سکتے، پاکستان 1980 میں افغان جہاد کا حصہ بنا اور افغانستان کو روس سے آزادی دلانے کے لیے جنگ میں امریکا کا اتحادی بنا اور ہم نے افغانستان میں گوریلا سرگرمیوں کے لیے انتہا پسند گروپوں کو تربیت دی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جب روس نے افغانستان چھوڑا تو ہمیں انتہا پسند گروپ ملے اور پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ہمیں انتہا پسند، فرقہ ورانہ گروپ، کلاشنکوف کلچر ملا اور ہمارے ملک میں منشیات آئی جس کے چیزیں غلط ہونا شروع ہوئیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'معیشت کے لیے امن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب آپ کے معاشرے میں مسلح گروپ ہوں تو یہ ممکن نہیں ہوتا، نائن الیون کے بعد ہم نے ایک مرتبہ پھردہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا اس وقت بھی اسی طرح کے انتہا پسند گروپ بنائے گئے جبکہ پاکستان کو انہیں غیر مسلح کرنے کی ضرورت تھی لیکن ہم دوبارہ اسی عمل میں چلے گئے، 70 ہزار پاکستانی اس جنگ میں مارے گئے'۔
وزیراعظم نے کہا کہ 'اس سے معیشت بھی نشانہ بنی اور پاکستان کا تشخص بھی مجروح ہوا اور دنیا کا خطرناک مقام قرار دیا گیا'۔
مزید پڑھیں:وزیر اعظم کی یوٹیوب اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات
ان کا کہنا تھا کہ 'جب میں حکومت میں آیا تو یہ طے کیا کہ ہم کسی بھی ملک کا اتحادی صرف امن کے لیے بنیں گے اور ہم کسی اور تنازع کا حصہ نہیں ہوں گے اورہم کسی بھی ملک کے ساتھ اس کے تنازع میں شریک نہیں ہوں گے جب سے ہم نے ایک کردار ادا کیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی، امریکا اور ایران کے درمیان بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کی'۔
امن عمل میں پاکستان کے کردار کا ذکر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'افغانستان کے امن عمل میں طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار کرنے میں پاکستان، امریکا کا شراکت دار ہے، ہم افغانستان میں امن کے لیے کسی حل کے قریب ہیں'۔
'مشکل فیصلوں پر ایسے عوامی ردعمل کا سامنا کبھی نہیں کیا'
وزیراعظم نے اپنی معاشی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ 'ہماری حکومت کو تاریخ کی بدترین معیشت ورثے میں ملی لیکن میں اپنی معاشی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے معیشت کے حوالے سے مشکل فیصلے کیے اور گزشتہ ایک برس میں جو عوامی رویے کا سامنا کیا اس سے پہلے زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا کیونکہ مشکل معاشی فیصلوں سے لوگوں کو اثر پڑ رہا ہے'۔
پاکستان کی معیشت کو استحکام کی جانب گامزن قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بالآخر معیشت استحکام کی طرف جارہی ہے اور گزشتہ چند ماہ میں روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ رک گیا ہے، اسٹاک مارکیٹ اوپر گئی ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری سالانہ 200 فیصد بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گو کہ اب بھی سخت محنت کی ضرورت ہے لیکن ہم درست سمت جارہے ہیں اور اس برس ہم معاشی بڑھوتری دیکھ رہے ہیں، منصوبہ ہے کہ روزگار دیا جائے، پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے حالات بنائے جائیں اور ورلڈ بینک نے پاکستان میں کاروبار کے لیے آسانیوں کی نشان دہی کی ہے اور دنیا کے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اس حوالے سے بڑی پیش رفت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے، شاہ محمود قریشی
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کو سب سے پہلے آبادی کا فائدہ ہے، 60 فیصد پاکستانی 30 سال سے کم عمر کے حامل ہیں جو پاکستان کی اصل طاقت ہیں، بدقسمتی سے ہم نے ان کو روزگار اور ہنر دینے کے بجائے نظرانداز کیا اور اب ہم نے ہنر سکھانے کا پروگرام شروع کیا ہے جس کے لیے عالمی اقتصادی فورم سے منسلک ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ ہم معدنی ذخائر سے بھی مالامال ہیں اور پوری حکومت کی توجہ ان وسائل سے فائدہ اٹھانے پر ہے، زراعت کے شعبے میں چین سے مدد حاصل کر رہے ہیں، چین سی پیک کے ذریعے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور یہ شعبہ ایسا ہے جس میں پاکستان تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔
'پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے '
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایک طرف چین ہے جو تیز رفتار معیشت ہے اور پاکستان کا اتحادی جس کے بعد وسطی ایشیائی ممالک ہیں، جب افغانستان میں امن ہوگا تو وسطی ایشیائی مارکیٹ تک ہماری رسائی ہوگی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پھر ایران ہے اور جب کشیدگی کم ہوگی تو ایران کے ساتھ تجارت میں دونوں ممالک کا فائدہ ہوگا، دوسرا بڑا پڑوسی بھارت ہے، بدقسمتی سے ہمارے اور بھارت کے درمیان جس طرح کے تعلقات ہونے چاہیے تھے اس طرح کے نہیں ہیں'۔
عمران خان نے کہا کہ 'جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے، تجارت شروع ہوگئی تو پھر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک طرف چین اور دوسری طرف بھارت پھر مغربی جانب قدرتی وسائل سے بھرپور ممالک واقع ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس وقت میری حکومت کو سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنے اداروں کو مضبوط کریں اور گورننس کو بہتر کریں'۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 'مذہبی سیاحت کے حوالے پاکستان مالا مال ہے جہاں صوفی ازم، بدھ ازم، ہندو ازم، سکھ ازم اور پہاڑی سلسلے سمیت دیگر مقامات ہیں اور ہم سیاحتی سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں'۔
مزید پڑھیں:افغانستان میں جنگ بندی کے امکانات موجود ہیں، عمران خان
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے زبردست کوششیں کیں اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے افغانستان میں امن عمل ضروری ہے'۔
وزیر اعظم عمران خان سے افغان امن عمل سے متعلق سوالات کیے گئے جہاں ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ طالبان اور افغان حکومت مل کر بیٹھیں کیونکہ افغانستان کا کوئی ملٹری حل نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی پر ان کا کہنا تھا کہ جب مسائل کا عسکری حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، افغان جنگ میں کھربوں ڈالر جھونک دیے گئے اور اس طرح کے معاملات سے دنیا میں غربت بڑھتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ 60 کی دہائی میں پاکستان معاشی حوالے سے تیزی ترقی کرنے والا ملک تھا جبکہ ہم اپنے تعلیم کے شعبے پر توجہ نہیں دے سکے کیونکہ تین طرز کی تعلیم تھی، تاہم میری حکومت اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔