• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ہر وقت بہت زیادہ تھکاوٹ جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھائے

شائع January 22, 2020
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

کیا ہر وقت تھکاوٹ، جسمانی توانائی سے محروم، حوصلہ ختم ہونا اور چڑچڑے پن کا شکار رہتے ہیں؟ یہ تو آپ کے دل کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

درحقیقت اوپر درج علامات برن آﺅٹ نامی سینڈروم (جسم کی غیرمعمولی کیفیات ظاہر کرنے والی علامات) کا نتیجہ ہوسکتی ہیں جو کہ دل کی دھڑکن میں جان لیوا بے ترتیبی کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق برن آﺅٹ سے دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی جسےatrial fibrillation بھی کہا جاتا ہے، کا خطرہ بڑھتا ہے۔

دل کی دھڑکن میں غیرمعمولی بے ترتیبی کو ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھانے والا عنصر مانا جاتا ہے۔

جریدے یورپین جرنل آف پرینیٹیو کارڈیالوجی میں شائع تحقیق کے محققین کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ تھکاوٹ جسے برن آﺅٹ سینڈروم بھی کہا جاتا ہے، عام طور پر دفتر یا گھر میں مسلسل تناﺅ کا نتیجہ ہوتا ہے، یہ ڈپریشن سے مختلف ہوتا ہے اور تحقیق کے نتائج سے یہ بات مزید مستحکم ہوتی ہے کہ اس پر قابو نہ پانا جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

atrial fibrillation کی وجوہات تاحال پوری طرح سامنے نہیں اسکی ہیں اور ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں اس حوالے سے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں اور اب اس نئی تحقیق میں بھی شدید تھکاوٹ اور دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کے درمیان تعلق کی مکمل وضاحت نہیں کی جاسکی۔

اس تحقیق کے دوران 11 ہزار سے زائد افراد کو دیکھا گیا جن بہت زیادہ تھکاوٹ، غصے کی شکایات تھیں جبکہ وہ سکون آور ادویات استعمال کررہے تھے اور ان کا جائزہ 25سال تک لیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو بہت زیادہ برن آﺅٹ کی شکایت ہوتی ہے ان میں دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ایسے اقدامات کو تجویز کرنے میں مدد مل سکے جو اس مسئلے سے لوگوں کو بچاسکے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024