جسٹس عیسیٰ کیس: 'کوئی شخص جج کے خلاف انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا'
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر پاکستان اور وزیر قانون سمیت کوئی بھی شخص کسی ادارے کو جج کے خلاف انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ کی سماعت ہوئی جہاں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے۔
دوران سماعت رضا ربانی نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 209 کی شق 5 اور 6 سے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں جس کے مطابق کسی جج کے خلاف انکوائری صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'صدر پاکستان، وزیر قانون سمیت کوئی بھی شخص کسی ادارے کو جج کے خلاف انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا، جج کے خلاف انکوائری کے لیے صرف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت کی جاسکتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف اثاثے ظاہر نہ کرنے پر مخلتف اداروں کو انکوائری کا حکم دیا گیا، ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین نے وزیر قانون سے مشاورت کی، وزیر قانون اور معاون خصوصی برائے احتساب نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں'۔
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پاناما پیپرز کے ماڈل پر مبنی ہے، وکیل
انہوں نے کہا کہ 'ججز کے خلاف ریفرنس میں 10 مئی 2019 کا دن بہت اہم ہے اور اس دن طلسماتی طور پر ججز کے خلاف تمام کارروائی ہوئی'۔
انہوں نے سوال کیا کہ 'کیا وزیر قانون یا مشیر کسی جج کے خلاف انکوائری کا حکم دے سکتا ہے؟'
انہوں نے اپنی بات دوہراتے ہوئے کہا کہ 'ججز کے خلاف انکوائری صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے، عدلیہ کو انتظامیہ کے شکنجوں سے محفوظ رکھنا ہوگا'۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 'یہ کہنا درست نہیں کہ ججز کو تعینات کرنے والے ہٹا بھی سکتے ہیں، ججز کی تعیناتی آرٹیکل 175 اے اور برطرفی 209 کے تحت ہوتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ججز کی مدت تعیناتی کا تحفظ بہت ضروری ہے، ججز کی مدت تعیناتی محفوظ نہ ہو تو عدلیہ آزاد نہیں ہو سکتی'۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 'آئین کے مطابق صدر پاکستان انتظامیہ کا حصہ نہیں ہوتے، کیا ریفرنس میں صدر صرف ربڑ سٹیمپ کے ڈاک خانے کا کردار ادا کرتے ہیں؟'
انہوں نے مزید کہا کہ 'صدر پاکستان کو ربڑ سٹیمپ قرار دینا بہت سنگین ہوگا' جس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ عدالتی سوالات کے جواب اپنے دلائل کے آخر میں دوں گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'وقت کے ساتھ صدر کے اختیارات کو محدود کیا گیا، صدر کے اختیارات محدود کرنے کا مقصد غلط استعمال روکنا تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں پہلا قدم ہی شبہ پیدا کرتا ہے، وکیل
انہوں نے کہا کہ 'ضیاء الحق نے صدارتی اختیارات کا غلط استعمال کیا، عدالت سیاسی فورم نہیں اس لیے ضیاء الحق پر مزید بات نہیں کروں گا تاہم یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ماضی میں صدارتی حکم پر ریفرنڈم ہوتے رہے ہیں'۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 'اب ریفرنڈم کے لیے صدر کو سفارش پارلیمان کو بھجوانا ہوتی ہے اور پارلیمان کی منظوری کے بعد ہی اب صدر ریفرنڈم کروا سکتے ہیں'۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ 'آئین میں صدر کو صوابدیدی اختیارات بھی حاصل ہیں، آپ کے دلائل منیر اے ملک کے موقف سے متصادم ہیں'۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 'پارلیمان نے ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار اپنے ہاتھ میں بھی نہیں رکھا، عدلیہ کی آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے انکوائری کا اختیار جوڈیشل کونسل کو دیا گیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'صدر کو صرف وحید ڈوگر کی شکایت کا جائزہ لینا چاہیے تھا'۔
اس موقع پر جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ 'کیا صدر متعلقہ مواد کے بغیر ریفرنس بھجوا دیتے؟'
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 'صدر کو بادی النظر میں ٹھوس مواد فراہم کیا گیا، مواد قانونی طریقے سے جمع کیا گیا یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آپ خود کہہ رہے ہیں کہ انکوائری صرف جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کی انکوائری متعلقہ جج کو نوٹس جاری کرنے پر ہی شروع ہوتی ہے اور اگر کونسل نوٹس جاری کرے تو کیا جج کو الزامات کا جواب نہیں دینا چاہیے؟'
ان کا کہنا تھا کہ 'جوڈیشل کونسل کے خلاف آئینی درخواستیں کیسے قابل سماعت ہیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل خود بھی مواد اکٹھا کرنے کا کہہ سکتی ہے اور اسے مواد استغاثہ نے ہی دینا ہوتا ہے'۔
بعد ازاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ عدالتی آبزرویشنز پر جواب کل کی سماعت میں دوں گا اور کوشش کروں گا کہ کل اپنے دلائل مکمل کر لوں۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔