کیا اس بار قومی ٹیم انڈر 19 ورلڈ کپ جیت سکتی ہے؟
14 سال گزر چکے ہیں جب پاکستان نے سرفراز احمد کی کپتانی میں چھوٹوں کا سب سے بڑا کپ یعنی ورلڈ کپ اٹھایا تھا۔ اس کے بعد انڈر 19 کی سطح پر پاکستان کی جانب سے موجودہ کئی بڑے ناموں نے حصہ لیا، جیسے احمد شہزاد، عمر اکمل، بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی، محمد عامر اور جنید خان، لیکن انڈر 19 ورلڈ کپ دوبارہ پاکستان کے ہاتھ نہ آسکا۔
ایسا نہیں کہ بعد میں کبھی کارکردگی اچھی نہیں رہی، بلکہ 2004ء اور 2006ء میں مسلسل 2 مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم نے بعد میں اکثر عمدہ کھیل بھی پیش کیا ہے، اور 2010ء اور 2014ء میں تو ٹیم نے فائنل تک بھی رسائی حاصل کی تاہم فتح ان کے حصے میں نہیں آسکی۔
یہ ساری باتیں مجھے اب یوں یاد آئیں کہ انڈر 19 مقابلوں کا 13واں ورلڈکپ اس بار جنوبی افریقہ کی سرزمین پر 17 جنوری سے کھیلا جارہا ہے۔ اور میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کیا اس بار پاکستانی ٹیم قوم کی توقعات پر پورا اترے گی؟ اس سوال کا جواب تو کچھ دنوں میں سامنے آ ہی جائے گا، لیکن امیدیں باندھنے میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ ہماری ٹیم اس قابل ضرور ہے کہ وہ ٹورنامنٹ جیتنے کا دعوٰی کرسکے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے روحیل نذیر کی کپتانی میں افریقی ساحلوں پر لنگر انداز ہونے والے پاکستانی بیڑے میں اتنا دم لگتا ہے کہ وہ مخالف بہنے والی لہروں کا منہ موڑ سکے۔ پاکستان اس لیے بھی خوش فہمی سے کام لے سکتا ہے کیونکہ چند ماہ پہلے جب باہمی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان نے افریقہ کا دورہ کیا تھا تب 7 میچوں پر مبنی ایک روزہ سیریز میں قومی ٹیم نے کلین سوئپ کیا تھا۔
انڈر 19 کرکٹ میں یہ کسی بھی ٹیم کا سب سے بڑا کلین سوئپ مارجن ہے۔ اس سیریز میں کپتان روحیل نذیر ہی تھے اور کافی دوسرے لڑکے بھی موجودہ ٹیم کا حصہ ہیں۔ سو میدانوں سے لڑکے واقف ہیں، اور اگر ایشیا کپ کا بُرا ریکارڈ نکال دیں تو یہ ٹیم تسلسل سے عمدہ کھیل پیش کرتی آ رہی ہے۔
سری لنکا کو باہمی ایک روزہ سیریز میں گزشتہ سال ہم شکست دے چکے ہیں۔ تاہم ایشیا کپ میں ہمیں انڈیا کے ہاتھوں مسلسل ہزیمت کا سامنا ہے بلکہ یہاں یہ بیان کرنا بھی اہم ہے کہ افغانستان کے خلاف بھی ہمارا انڈر 19 ریکارڈ بہت مایوس کن ہے۔
ورلڈ کپ کا جو بھی نتیجہ سامنے آئے اس سے ہٹ کر بھی ایک غور طلب معاملہ ہوگا۔ موجودہ دور میں انڈر 19 کرکٹ ہی کھیل کی سب سے بڑی نرسری ہے۔ یہیں سے ٹیلنٹ سامنے آتا ہے۔ لہٰذا ایک جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سے ایسے کھلاڑی جو یہاں سے ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، یا کم از کم شائقین ان سے امید رکھ سکتے ہیں کہ کل کو وہ ٹیم کی نیّا پار لگاتے رہیں گے۔
روحیل نذیر
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کم عمری میں ہی اپنا نام بنا لیتے ہیں۔ کھیل کے ماہرین ان میں ایک بڑے ہیرو کی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ روحیل نذیر ان میں سے ایک ہیں۔
2017ء میں بطورِ وکٹ کیپر بلے باز اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے روحیل جلد ہی فرسٹ کلاس کا حصہ بھی بن گئے تھے۔ اچھا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو موقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس تعریف کے زمرے میں ہم روحیل کو ایک بہت اچھا کھلاڑی قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ان کو جب بھی جہاں بھی موقع ملا انہوں نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
روحیل نذیر انڈر 19 کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک اور فرسٹ کلاس میں ایک بہترین بلے باز اور قابلِ اعتماد وکٹ کیپر کا روپ دھار چکے ہیں۔ یوتھ کرکٹ میں 39 کی اوسط رکھنے والے روحیل کی لسٹ اے (ڈومیسٹک ون ڈے) میں اوسط 47 کی ہے اور صرف 11 اننگز میں وہ اب تک 2 سنچریاں بھی اسکور کرچکے ہیں۔
ان کی ایک اور عمدہ بات یہ ہے کہ وہ پریشر کا شکار نہیں ہوتے۔ روحیل بڑے میچ کا کھلاڑی ہے۔ ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش میں کھیلے گئے ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں ان کی شاندار سنچری کی بدولت پاکستان نے ٹرافی بھی جیتی ہے، اور اسی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر انہیں میچ اور ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ قائدِاعظم ٹرافی کے فائنل میں بھی جب ان کی ٹیم انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہی تھی اور صرف 69 پر 5 بلے باز پویلین لوٹ چکے تھے تو انہوں نے شاندار 80 رنز بنائے تھے۔ صرف یہی نہیں دوسری اننگز میں بھی انہوں نے میچ بچانے کی پوری کوشش کی اور قیمتی 70 رنز بنائے تھے۔
حیدر علی
اٹک سے تعلق رکھنے والے حیدر علی نے بھی اپنا آپ بہت جلد منوایا ہے۔ وہ اسی سال منظرِ عام پر آئے اور آتے ہی چھاگئے۔ اپنا پہلا یوتھ ون ڈے بھی اسی سال کھیلنے والے حیدر علی نے نہ صرف فرسٹ کلاس میں جگہ حاصل کی بلکہ وہاں اپنے نقوش بھی چھوڑ دیے۔
جب فرسٹ کلاس کرکٹ کی بات ہوتی ہے تو یہ بات ذہن میں رہے کہ اب ڈومیسٹک اسٹرکچر تبدیل ہوچکا ہے اور اس بار پاکستان کا فرسٹ کلاس درجنوں ٹیموں پر مشتمل ہونے کے بجائے صرف 6 ٹیموں پر مشتمل ہے، یعنی اب صرف اچھے کھلاڑیوں کو موقع نہیں ملے گا، بلکہ جو بہت اچھے ہوں گے صرف وہی ڈومیسٹک کرکٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
حیدر علی ٹیم کے نائب کپتان بھی ہیں۔ روحیل کے ساتھ ایک ہی ٹیم میں فرسٹ کلاس بھی کھیلتے ہیں سو ذہنی ہم آہنگی بھی عمدہ ہے۔ حیدر علی نے ایمرجنگ ایشیا کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی، اور پاکستانی بیٹنگ کا مستقبل کہلانے والے خوشدل شاہ، سعود شکیل اور عمیر یوسف کی موجودگی کے باوجود وہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کے دوسرے کامیاب ترین بلے باز تھے۔
قائدِاعظم ٹرافی کے فائنل میں جہاں نادرن کی ٹیم میچ بچانے کی جدوجہد کر رہی تھی یہ حیدر علی ہی تھے جن کی ذمہ دارانہ بلے بازی کی بدولت میچ چوتھے دن تک گیا۔ حیدر علی کا ایک اور کمال یہ بھی ہے کہ وہ بڑے شاٹس بھی لگانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
عامر خان
خیبر پختونخوا میں تو جیسے فاسٹ باؤلنگ کا ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار جنم لے رہا ہے۔ اس بار سوات سے تعلق رکھنے والے عامر خان سامنے آئے ہیں۔ 18 سالہ عامر خان تازہ ترین دریافت ہیں۔ حارث رؤف کی طرح یہ بھی ٹیپ بال کرکٹر تھے۔ 3 روزہ قومی انڈر 19 ٹورنامنٹ میں ان کی شاندار کارکردگی نے قومی ٹیم کے دروازے ان پر کھول دیے۔
عامر خان 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکتے ہیں۔ جونیئر ٹیم کے کوچ اعجاز احمد کو یقین ہے کہ وہ ایک بڑا سرپرائز ثابت ہوں گے اور ٹیم کی فتوحات میں ان کا کردار اہم ہوگا۔
حال ہی میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں محمد عامر اور وہاب ریاض سے کافی مفید مشورے بھی انہیں ملے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان پر کتنا عمل کرتے ہیں۔
عباس آفریدی
باؤلنگ آل راؤنڈر عباس آفریدی انڈر 19 ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ عباس آفریدی گزشتہ سال حبیب بینک کی طرف سے فرسٹ کلاس بھی کھیل چکے ہیں۔ وہ لسٹ اے میچوں میں بھی حبیب بینک کے لیے کھیل چکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسابقتی کرکٹ کا انہیں کافی تجربہ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فاٹا/قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ریاض آفریدی اور شاہین آفریدی کی طرح وہ کیا کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ شاہین آفریدی کے بڑے بھائی ریاض آفریدی ایک بہترین انڈر 19 کھلاڑی تھے، لیکن بدقسمتی سے وہ پاکستان کی طرف سے صرف ایک ٹیسٹ میچ ہی کھیل سکے۔
عباس آفریدی مستقل اچھی باؤلنگ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اپنے گزشتہ 9 میچوں میں وہ مستقل وکٹیں لے رہے ہیں، یعنی کوئی میچ ایسا نہیں گزرا جب انہیں وکٹ نا مل سکی ہو۔ اسی مستقل مزاجی کی وجہ سے ان سے امیدیں لگانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
عامر علی
دادو جیسے چھوٹے شہر سے سامنے آنے والے عامر علی، خالصتاً اپنی زبردست کارکردگی اور میرٹ کی بنیاد پر ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔ الٹے ہاتھ کے شاندار اسپنر عامر علی کو اپنی باؤلنگ پر بہترین کنٹرول حاصل ہے۔ خراب گیند پھینکنے کی شرح ان کے ہاں بہت کم ہے۔
ان کی خوبی یہ ہے کہ ایک تو وہ رنز روکتے ہیں دوسرا وکٹ بھی نکالتے ہیں۔ اننگز کے درمیانی اوورز میں بھی بلے بازوں کو سکون نہیں لینے دیتے۔ ایسا شاندار اسپنر کپتان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ کیونکہ درمیانی اوورز ہی وہ وقت ہوتا ہے جب کسی اننگز کی اٹھان ہوتی ہے اور یہیں کسی بھی اننگز کی کمر بھی ٹوٹتی ہے۔
عامر علی گزرے سال افریقہ کو دھول چٹانے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے اور انہوں نے افریقہ کی تیز باؤنسی پچوں پر شاندار باؤلنگ کی تھی۔ جو اسپنر افریقہ میں بھی عمدہ باؤلنگ کرے اس کی قابلیت میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ امید ہے عامر علی اپنا اور پاکستان کا نام ضرور روشن کریں گے۔
محمد شہزاد
مستقبل کا عبدالرزاق قرار دیے جانے والا محمد شہزاد عزم و ہمت کی ایک نئی مثال ہے۔ والد کی وفات کے بعد 5 بھائیوں اور والدہ کی کفالت کرنے والا ایک پردیسی لڑکا جو آبائی شہر ڈی جی خان چھوڑ کر رزق کی تلاش میں لاہور آچکا ہے، اسے اب گھر کے ساتھ ساتھ صرف 17 سال کی عمر میں قوم کی امیدوں کا بوجھ بھی اٹھانا ہے۔
انہیں انڈر 16 کی سطح پر آسٹریلیا کے خلاف منتخب کیا گیا تھا جہاں ان کی شاندار کارکردگی نے ان پر ورلڈکپ کے دروازے کھول دیے۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف ناقابلِ شکست 73 رنز بنائے تھے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش انڈر 16 کے خلاف بھی ان کی شاندار کارکردگی انہیں سلیکشن کا اہل بنانے کا باعث بنی۔
جونیئر سلیکشن کمیٹی کے ممبر سلیم جعفر کو ان میں بڑے کھلاڑی کی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں۔
کچھ مزید کھلاڑی
قاسم اکرم اور فہد منیر بھی اپنی آل راؤنڈ صلاحیتوں کی وجہ سے ٹیم کے لیے خاصے اہم ثابت ہونے والے ہیں۔ خاص کر قاسم اکرم شاندار انڈر 19 ڈومیسٹک سیزن کھیل کر آئے ہیں۔ مڈل آرڈر بلے باز محمد حارث بھی تسلسل سے رنز بنا رہے ہیں۔ سو امید کی جا سکتی ہے کہ چھوٹے لڑکے قوم کو بڑی خوشی دے سکیں گے۔
نسیم شاہ کا نام کرکٹ بورڈ نے ٹیسٹ میچوں کی وجہ سے واپس لے لیا تھا۔ افواہیں تو یہ بھی ہیں کہ ان کی عمر کا کوئی مسئلہ ہے، لیکن اگر وہ بھی ہوتے تو کمال ہوجاتا۔ ایک اور اہم فاسٹ باؤلر اختر شاہ انجری کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نا بن سکے لیکن ان کی جگہ الٹے ہاتھ کے طاہر حسین بھی اچھا ٹیلنٹ لگ رہے ہیں۔ طاہر نے وارم اپ میچ میں سری لنکا کے خلاف 4 وکٹ بھی حاصل کی ہیں۔ وہ بورے والا ایکسپریس وقار یونس کے شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کھلاڑیوں کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک متوازن ٹیم ہے جو سیمی فائنل تک تو ہنستے کھیلتے پہنچ جائے گی۔ یاد رہے کہ آسٹریلیا اور پاکستان دونوں ٹیمیں 5 بار ورلڈکپ کا فائنل کھیل چکی ہیں۔ سب سے زیادہ 6 بار انڈیا نے ورلڈکپ فائنل کھیلا ہے۔ اگر سب سے زیادہ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں کا ذکر ہو تو آسٹریلیا اور انڈیا 3،3 مرتبہ یہ اعزاز اپنے نام کرچکی ہیں۔