سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کا فیصلہ معطل کردیا
سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ (راولپنڈی بینچ) کی جانب سے وزارت دفاع کے ماتحت ادارے کی حراست میں موجود وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کا دیا گیا فیصلہ معطل کردیا۔
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے سابق فوجی افسر کی حراست غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا جس کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
مذکورہ درخواست کی آج ہونے والی سماعت میں جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیس کس وجہ سے قائم کیا گیا؟ کوئی تو وجہ ہوگی گرفتاری کی؟
اس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ میں کرنل (ر) انعام الرحیم کی گرفتاری پر سربہ مہر ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت
جس کے بعد جسٹس مشیر عالم نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے زیرحراست شخص کوبتایا ہے کہ ان پر کون کون سے الزامات ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی انہیں بتا دیا ہے کہ آپ پر کیا الزامات ہیں اور وہ ملزم ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم سے لیپ ٹاپ برآمد ہوا جس میں حساس نوعیت کی انفارمیشن اور بہت سا مواد ہے، جس پر جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ قانون کے مطابق گرفتاری کی وجوہات بتانا لازم ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیمبر میں سماعت کرلیں میں سب بتانے کو تیار ہوں۔
اسی دوران عدالت میں بینچ کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ تحقیقات کے لیے آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا، ایڈووکیٹ انعام الرحیم اکیلے نہیں ان کے ساتھ اور بھی لوگ ہیں جن میں سے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے اور کچھ کوحراست میں لینا باقی ہے۔
مزید پڑھیں: سابق فوجی افسر کی حراست: وفاقی حکومت کا ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہم جرم کی نوعیت دیکھنا چاہ رہے ہیں، اس پر انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ کرنل (ر) انعام الرحیم کے پاس جوہری ہتھیاروں، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور کچھ لوگوں کے حوالے سے معلومات تھیں۔
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ ان کے پاس معلومات ہیں جو انہوں نے دشمن سے شئیر کیں؟، آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ کرنل انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی کرنل(ر) انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں، ان کے خلاف ابھی تحقیقات چل رہی ہیں۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ ایڈووکیٹ کے پیچھے پورا ایک نیٹ ورک ہے جس میں متعدد لوگوں کی گرفتاریاں ہونی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست غیر قانونی قرار، رہائی کا حکم
سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ تحقیقات کس مقام پر پہنچ چکی ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں کورٹ مارشل سے متعلق کچھ کہا نہیں جاسکتا، جب تحقیقات مکمل ہوں گی تو کرنل (ر) انعام الرحیم کے پاس تمام حقوق ہوں گے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ بینچ کے سامنے جمع کروایا گیا تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کا فیصلہ معطل کردیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے مقدمے کو قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اِن کیمرہ سماعت کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست مسترد
تاہم عدالت نے وفاقی حکومت کو وہ دستاویز پیش کرنے کی ہدایت کی تھیں جس سے واضح ہو کہ ایڈووکیٹ کی حراست کا معاملہ قومی سلامتی سے وابستہ ہے۔
وکیل کی حراست کا معاملہ
خیال رہے کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور فوج اور مسلح افواج کے انتظامی احکامات کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔
اس کے ساتھ وہ جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی حملے اور نیوی کے افسران سمیت دیگر افراد کی سزا کے حوالے سے ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشل کے خلاف دائر درخواست کے بھی وکیل تھے۔
وکیل کے مبینہ اغوا کے درج مقدمے کے مطابق ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو نامعلوم افراد نے عسکری 14 میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا جو گیریژن شہر میں خاصی محفوظ آبادی سمجھتی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: زیر حراست وکیل سے رازداری قانون کی ’خلاف ورزی‘ کی تفتیش جاری ہے، وزارت دفاع
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ جس وقت ایڈووکیٹ انعام الرحیم سو رہے تھے نامعلوم افراد ان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور اہلِ خانہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں جبراً اغوا کیا۔
جس کے بعد ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی حراست کے خلاف ان کے اہل خانہ نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی تھی۔
20 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے وزارت دفاع اور داخلہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی موجودگی کے حوالے سے بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔
وزارت داخلہ نے ان کی موجودگی سے انکار کیا تھا جبکہ وزارت دفاع کے ایک نمائندے نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف کو بتایا تھا کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کو پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست مسترد
بعدازاں 9 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کی حراست کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم وزارت دفاع نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا عابد کے ذریعے ایک انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔
جس پر وفاقی حکومت نے 11 جنوری کو سابق فوجی افسر ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
مذکورہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے مذکورہ الزامات کے تحت ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
دفاع اور داخلہ کے سیکریٹریز کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ تفتیش کے دوران ملزم کی رہائی کے باعث سنگین نوعیت کے الزامات کی تحقیقات متاثر ہوں گی۔