بھارت: متنازع شہریت قانون پر احتجاج کرنے والوں کو گولی مارنے کی دھمکی
نئی دہلی: بھارتی ریاست مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ نے نئے شہریت قانون پر احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کو گولی مارنے اور جیل میں ڈالنے کی دھمکی دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اور بی جے پی مغربی بنگال کے صدر دلیپ گھوش نے یہ بات پارٹی اراکین سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
کابینہ کے یونین منسٹر بابل سوپریو نے ان کے اس بیان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت قانون کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج
واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں بھارتی حکومت نے ایک متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے وہ افراد جو مسلمان نہیں ان کو باآسانی شہریت دی جاسکے گی، مذکورہ قانون کے منظور ہونے کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون شہریوں کو قانونی شہری کے طور پر رجسٹر کرنے کا پیش خیمہ ہے جس سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو غیر ریاستی ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ بہت سے غریب شہریوں کے پاس اپنی قومیت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات ہی نہیں۔
دلیپ گھوش نے مغربی بنگال میں اپوزیشن جماعت آل انڈیا ترینامول کانگریس پارٹی کی وزیر اعلیٰ ممتا بنیرجی پر تنقید کرتے ہوئے بی جے پی کے زیر اثر بھارت کی دیگر ریاستوں کی حکومت میں اس احتجاج سے نمٹنے کے اقدامات اور اُن کی حکومت کے اقدامات کا موازنہ کیا۔
خیال رہے کہ ممتا بنیرجی ان متعدد وزرائے اعلیٰ میں سے ہیں جنہوں نے متنازع شہریت قانون پر اپنی ریاست میں عمل درآمد کرانے سے انکار کردیا ہے اور سڑکوں پر اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کی قیادت بھی کی ہے۔
دلیپ گھوش کا کہنا تھا کہ 'آسام، اتر پردیش، کرناٹکا میں دیکھیں، ہماری حکومت نے ان پر ایسے گولیاں چلائی ہیں جیسے کتوں کو مارا جاتا ہے'۔
مغربی بنگال میں احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'آپ یہاں آئیں، ہمارا کھانا کھائیں، یہاں رہیں اور پھر ہماری ہی زمین کو نقصان پہنچائیں؟، ہم آپ کو ڈنڈوں سے ماریں گے، گولیاں ماریں گے اور جیل میں ڈال دیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: شہریت قانون پر بھارت کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہوگا، سابق سیکرٹری خارجہ
خیال رہے کہ 11 دسمبر کو شہریت قانون کے منظور ہونے کے بعد سے ملک بھر میں سامنے آنے والے احتجاج میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ کئی اہم سماجی رہنماؤں، ٹیلی ویژن کے اداکاروں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
آسام کی پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے 5 افراد پر گولیاں چلائیں اور کرناٹکا کے حکام نے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 2 افراد کے اہل خانہ کو معاوضے کی پیشکش کی ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے مظاہرین سے بدلہ لینے کے وعدے کے بعد ایک ہی روز میں 16 مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا جبکہ اتر پردیش کی انتظامیہ نے ان اموات کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔