• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

زینب الرٹ بل قومی اسمبلی سے منظور

شائع January 10, 2020
بل کے تحت بچوں کے خلاف جرم کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا سنائی جاسکے گی — فائل فوٹو/ڈان
بل کے تحت بچوں کے خلاف جرم کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا سنائی جاسکے گی — فائل فوٹو/ڈان

ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد قومی اسمبلی میں زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

اس بل کو وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے گزشتہ سال جون کے مہینے میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس گھناؤنے جرم کے بعد قصور میں مظاہرے سامنے آئے تھے جس میں 2 افراد ہلاک بھی ہوئے تھے جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر #JusticeforZainab کے نام سے ٹرینڈ کے ذریعے عوام نے بچوں پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی تھی۔

اگست 2019 میں پارلیمانی کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو 'سخت ترین' سزا دی جانی چاہیے۔

چند کے علاوہ کمیٹی کے تمام اراکین نے اس جرم کے لیے عمر قید کی سزا کی مخالفت کی تھی جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ اس جرم پر سزائے موت ہی ہونی چاہیے۔

آج منظور ہونے والے بل کے مطابق 'بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا'۔

علاوہ ازیں لاپتہ بچوں کی رپورٹ کے لیے ہیلپ لائن قائم کی جائے گی اور 18 سال سے کم عمر بچوں کا اغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے اور گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لیے زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا کہ 'جو افسر بچے کے خلاف جرائم پر دو گھنٹے میں ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی'۔

تاہم بل کے مطابق یہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔

اجلاس کے دوران وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اسد عمر کا کہنا تھا کہ '3 ماہ کے اندر اندر بچوں کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کے کیسز کو حل کیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: قصور: 500 روپے کے عوض 12 سالہ بیٹی کو فروخت کرنے کے الزام میں باپ پر مقدمہ

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے بچے طاقتور لوگوں سے زیادہ حساس ہیں'۔

بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'زینب الرٹ بل جو میں نے پچھلی اسمبلی میں پیش کیا تھا لیکن اس اسمبلی کی مدت میں پاس نہ ہو سکا، آج پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امید ہے سینیٹ بھی اس قانون کو جلد منظور کرلے گی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اس ملک کے معصوم بچوں کی حفاظت پارلیمان اور حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیے'۔

بل کے سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایجنسی کے قیام کے راستے کھل جائیں گے جہاں لاپتہ بچوں کے کیسز رپورٹ ہوں گے اور ان کے حوالسے ایک خود کار نظام کے تحت الرٹ جاری ہو جائے گا۔

قصور واقعات

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں قصور بچوں کے ریپ اور زیادتی کے واقعات سے لرز اٹھا ہے۔

جنوری 2018 میں 5 روز سے لاپتہ رہنے کے بعد 6 سالہ بچی زینب انصاری کی لاش قصور میں شہباز خان روڈ کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور لوگوں کی جانب سے ان واقعات میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔

زینب کے کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کو 23 جنوری 2018 کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور 12 جون کو عدالت عظمیٰ نے ملزم کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم نے 8 دیگر بچوں کے ساتھ اسی طرح کا جرم کیا، بعد ازاں عمران علی کو گزشتہ برس اکتوبر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’گینگ ریپ‘ کا ڈراما رچانے پر 19 سالہ لڑکی کو سزا کا سامنا

اس سے قبل 2015 میں قصور کے حسین خان والا گاؤں نے دنیا بھر کی توجہ اس وقت حاصل کی تھی جب وہاں چائلڈ پورنوگرافی کا معاملہ سامنے آیا تھا، اس وقت سیکڑوں ایسی ویڈیو کلپس سامنے آئی تھیں جس میں ایک گروپ کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی عمل کرنے اور اس کی فلم بندی کرنے پر مجبور کرتا تھا۔

یہ گروپ ان ویڈیوز کو ان بچوں کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا اور ان سے لاکھوں روپے نقد اور جیولری کی صورت میں وصول کرتا تھا۔

گزشتہ سال ایک مرتبہ پھر پنجاب کے اس ضلع کو میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی جب پولیس کو 3 کم سن بچوں کی لاشیں ملیں جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

اس وقت شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'قصور سے مسلسل بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آنے پر تشویش ہے'۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کا کہنا تھا کہ 'زینب الرٹ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں مہینوں سے زیر التوا ہے جس کی صدارت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں'۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت نے قائمہ کمیٹی کو بل قومی اسمبلی میں بھیجنے کا کہا ہے تاہم ایسا نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس میں غیر ضروری تاخیر سامنے آرہی ہے۔

رانا ثنا اللہ کا منشیات کیس میں عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے اپنے خلاف جاری منشیات کیس میں حقائق جاننے کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا۔

لیگی رہنما نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'قرآن میں لکھا ہے تم پر فرض ہے حق اور سچ کی بات کرو'۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر سچ کہہ رہا ہوں اور قرآن اٹھانے کو بھی تیار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 'یکم جولائی کو پارٹی اجلاس کے لیے لاہور کا ٹول پلازہ کراس کیا، تفتیشی افسر کی مجھ سے بات کرنے کی فوٹیج نکال لیں وہ مجھ سے ملا تک نہیں'۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ 'اے این ایف حکام نے ڈرائیور کو کھینچ کر گاڑی سے اتارا اور جب عدالت میں پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ساتھ 15 کلو منشیات بھی ہے'۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ 'عدالت میں 15 کلو منشیات، اے این ایف کے گودام سے لائی گئی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ '10 سال وزیر قانون رہا ہوں، 25 سال میں کسی منشیات فروش کی سفارش یا تعلق نہیں رکھا'۔

انہوں نے بتایا کہ 'یہ وہ کیس ہے جس میں کوئی تفتیش نہیں کی گئی، عدالت میں چالان پیش کرتے ہوئے ثبوت بھی سامنے لانا ہوتے ہیں'۔

انہوں نے حکومت کی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے پر رضامندی کا اظہار کیا اور حقائق جاننے کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔

اے این ایف نے دنیا کو حقائق بتائے، مراد سعید

قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی مراد سعید نے رانا ثنا اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'ایوان میں قرآن مجید لانے کی ضرورت نہیں ہے، پیر کے روز شہریار آفریدی اے این ایف کا موقف بیان کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رانا ثنا اللہ کے خلاف شریف خاندان نے خود 1992 میں مقدمہ درج کیا تھا، لیگی قیادت رانا ثنا اللہ پر قتل کے الزامات لگاتی رہی ہے'۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'کیا ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن بھول گئے ہیں؟'

مراد سعید کا کہنا تھا کہ 'اے این ایف آزاد ادارہ ہے، جس نے دنیا کو حقائق بتائے'۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تھا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے 24 دسمبر کو ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024