ایرانی میزائل حملوں کا قبل از وقت پتہ چل گیا تھا، امریکا کا دعویٰ
امریکا میں وائٹ ہاؤس اور دفاعی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حملے سے پہلے ہی پتہ چل گیا کہ ایرانی میزائل عراق میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
گزشتہ روز ایران نے سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر 20میزائل فائر کیے تھے اور ان حملوں میں 80امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے
تاہم اس کے برعکس امریکا نے ایرانی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملوں میں امریکی فوج کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا اور امریکی آفیشلز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حملوں کے بارے میں قبل از وقت ہی پتہ چل گیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ میں حکام نے دعویٰ کیا کہ انہیں خفیہ ذرائع کے ساتھ ساتھ عراق میں مواصلاتی نظام سے اس حملے کی وارننگ مل گئی تھی۔
ایک سینئر انتظامی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم جانتے تھے اور عراق نے ہمیں حملوں سے کئی گھنٹوں قبل ہی اس حوالے سے خبردار کردیا تھا، ہمیں کئی گھنٹوں قبل ہی خفیہ اطلاعات موصول ہو گئی تھیں کہ ایران ہمارے اڈوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
دوسری جانب ایک اور سینئر دفاعی عہدیدار نے معلومات کی فراہمی میں عراق کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر عراقیوں نے معلومات فراہم کی تھیں تو یہ کئی گھنٹے قبل ممکن نہیں تھا۔
اخبار کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع مارک اسپر نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی سمیت محکمے کے اہم حکومتی عہدیداروں کا اجلاس طلب کیا تھا اور حملے کی اطلاع موصول ہونے پر انہوں نے اجلاس منسوخ کردیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق قبل از وقت وارننگ ملنے کی بدولت فوجی کمانڈرز کو اپنی فوج کو محفوظ مقام پر منتقل اور حفاظتی سامان لیس کرنے کا مناسب وقت مل گیا اور حملے کے کئی گھنٹوں بعد تک امریکی فوجی اپنے محفوظ ٹھکانوں میں رہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا ایران پر فوری طور پر اضافی پابندیاں لگانے کا اعلان
ایک عہدیدار نے کہا کہ حملے سے قبل کچھ دستے مغربی عراق میں واقع الاسد فوجی اڈے سے نکل گئے تھے۔
ایک اور سینئر دفاعی عہدیدار نے کہا کہ یہ محض خوش قسمتی نہیں کہ کوئی حملے میں ہلاک نہیں ہوا، قسمت کا ہمیشہ اہم کردار ہوتا ہے لیکن فوجی محاذ پر موجود کمانڈرز نے حملے کا اندازہ لگاتے ہوئے بہترین فیصلہ کیا۔
حملے کے بعد اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی قبل از وقت ملنے والی وارننگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی بدولت کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
ایک دفاعی عہدیدار کے مطابق امریکی صدر ریڈار نیٹ ورک کی جانب اشارہ کر رہے تھے جو امریکی فوج نے دشمنوں کے میزائلوں کی نشاندہی کے لیے نصب کیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع کا آرمی چیف کو فون،'خطے کی کشیدگی میں کمی کے خواہاں ہیں'
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ان اطلاعات کی روشی میں کم از کم دو خفیہ ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کی بدولت امریکا کو اپنی منصوبہ بندی کے لیے معقول وقت مل گیا۔
حملے سے قبل سب سے پہلے یہ عندیہ ملا کہ عراق میں موجود امریکی فوج پر ایران حملے کی تیاری کر رہا ہے البتہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ اطلاع کہاں سے موصول ہوئی۔
ایک اور حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ امریکی فوج کو حکومت کے اندرونی ذرائع سے حملے کے 'واضح اشارے' مل چکے تھے جبکہ ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ پینٹاگون کو ایران کے جوابی حملے کی پوری توقع تھی۔
دوسری وارننگ تکنیکی اعتبار سے ملی، رپورٹس کے مطابق امریکی فوج کے پاس سیٹلائٹ ہے جو لانچ ہونے کے فوراً بعد میزائل کا سراغ لگا لیتی ہے جس سے امریکی حکومت حملوں کے بارے میں خبردار ہو گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نیٹو میں شامل کچھ ممالک کی افواج کا عراق سے انخلا شروع
3 جنوری کو ڈرون حملے میں قاسلم سلیمانی سمیت اہم فوجی قیادت کی ہلاکت کے بعد امریکا نے احتیاطی تدابیر کے طور پر مشرق وسطیٰ میں ساڑھے 4 ہزار فوجی تعینات کر دیے تھے اور خطے میں فوج کے مقامات بھی بدل دیے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ محاذ پر موجود کمانڈرز نے اپنے سروس ممبرز کو چھوٹے فوجی اڈوں پر منتقل کرتے ہوئے آلات اور سازوسامان کو بھی مختلف مقامات پر منتقل کردیا تھا تاکہ انہیں ہدف بنانا مشکل ہو سکے۔
ایک سینئر دفاعی عہدیدار نے کہا کہ لوگوں کو ایسے مقامات سے نکال لیں جن کا دفاع ممکن نہ ہو اور انہیں بہتر دفاع کے حامل علاقوں میں منتقل کردیا جائے لیکن ساتھ ساتھ ہمارے فوجیوں کو ایک جگہ جمع نہ کریں تاکہ انہیں ایک جگہ ہدف نہ بنایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ حملے سے ایک گھنٹہ قبل منگل کو شام 4 بجے حکام نے میڈیا کو بھی ممکنہ ایرانی حملے کے حوالے سے خبردار کردیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق میزائل لانچ ہونے کے بعد امریکی فوجی حکام پر اعتماد نہیں تھے کہ ایران کی جانب سے کن اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ایران کا کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکا کو مزید حملوں کا انتباہ
ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ یہ حملے ایک گھنٹے تک جاری رہے، پہلے حملے سے آخری حملے کے درمیان کُل دورانیہ ایک گھنٹے سے زائد تھا، ایسا نہیں تھا کہ ایک حملہ ہوا اور دھماکا ہوا بلکہ یکے بعد دیگرے میزائل لانچ کیے جاتے رہے۔
رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ پہلا میزائل لانچ ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس، سینٹرل کمانڈ اور دو دیگر کمانڈ ناردرن کمانڈ اور اسٹریٹجک کمانڈ کے درمیان مستقل رابطہ تھا۔
میزائل نے جیسے ہی اپنے پہلے ہدف کو نشانہ بنایا تو امریکی فوجی حکام نے نقصانات کا اندازہ لگانا شروع کردیا، لہٰذا منگل کو ساڑھے 7 بجے وائٹ ہاؤس حکام نے ٹرمپ کو بریفنگ دی اور وہ پراعتماد تھے کہ حملے میں کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
البتہ حقیقتاً حکام بدھ کو اُس وقت تک ایرانی حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں پراعتماد نہیں تھے جب تک امریکی فوج نے حملے میں تباہ شدہ ملبے کا بغور جائزہ نہیں لے لیا۔
دفاعی حکام کے مطابق کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہ ہونے کے بعد آفیشلز کا یہ ماننا ہے کہ ایران نے محض طاقت کا ایک مظاہرہ کیا تاکہ وہ اپنے عوام کے سامنے سرخرو ہو کر شرمندگی سے بچ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوابی حملہ امریکا کے منہ پر تھپڑ ہے، خامنہ ای
سینئر انتظامی عہدیداروں نے بتایا کہ امریکی سیکریٹری دفاع اسپر اور سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو منگل کو شام 7بجے وائٹ ہاؤس پہنچے اور ایک گھنٹے بعد ٹرمپ نے امریکی اراکین کانگریس کو فون کر کے مطلع کرنا شروع کردیا کہ ایرانی حملے میں کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
ایک اور انتظامی عہدیدار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ یہ ایران کی جانب سے باقاعدہ جنگ شروع کرنے کے بجائے اپنے عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنے کی کوشش تھی۔