ترکی اور روس کا لیبیا میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ
لیبیا میں مخالف گروپس کی حمایت کرنے والے ترکی اور روس نے لیبیا کے تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ 12 جنوری سے جنگ بندی کرکے طرابلس سمیت دیگر شہروں میں حالات کو معمول پرلائیں۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان استنبول میں ملاقات ہوئی جس کے بعد جاری بیان میں فریقین سے طرابلس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔
خیال رہے کہ ترکی، لیبیا میں اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ فیض السیراج کی گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی پشت پناہی کررہے ہیں جبکہ روسی فوجی کنٹریکٹرز کو مخالف گروپ جنرل خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔
ترک صدر نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ اپنے عسکری مشیروں کو طرابلس بھیجے گا جبکہ گزشتہ برس نومبر میں لیبیا کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد اپنی فوج بھیجنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں:ترک پارلیمنٹ میں فوج لیبیا بھیجنے کی منظوری
گزشتہ ہفتے ترک پارلیمنٹ نے لیبیا میں فوج بھیجنے کی منظوری دیتے ہوئے ان معاملات پر فیصلے کا اختیار صدر رجب طیب اردوان کو دیا تھا۔
ترک پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے فوری بعد مصر کی جانب سے ردعمل آیا تھا اور اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ عالمی قوانین اور لیبیا کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اس کے علاوہ عرب لیگ نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔
طیب اردوان اور پیوٹن نے استنبول میں ملاقات کے بعد مشترکہ طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے طرابلس اور دیگر شہروں میں کشیدگی ختم کرکے حالات کو معمول پر لانے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں امن مذاکرات پر زور دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے تنازع کے باعث خطے کے استحکام کو خطرات ہیں اور بے قاعدہ ہجرت بھی بڑھ رہی ہے اور اس کے علاوہ خطے میں اسلحے کا مزید پھیلاؤ، دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں سمیت انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا میں امن کے قیام کے لیے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور متحارب گروپوں میں مذاکرات کے ذریعے امن کا راستہ ہموار کرنے میں مصروف ہے جس میں معمولی بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ترکی- طرابلس معاہدے: عرب لیگ کا لیبیا میں 'بیرونی مداخلت' روکنے پر زور
خلیفہ حفتر کے جنگجووں نے حالیہ لڑائی کے دوران لیبیا کے اسٹریٹجک حوالے سے اہم ساحلی شہر سرت پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ مزید پیش قدمی کررہے ہیں۔
ایل این اے نے اپریل 2019 سے طرابلس کی حکومت کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب دارالحکومت طرابلس سے 370 کلومیٹر دور سرت پہنچ چکے ہیں جہاں لڑائی جاری ہے۔
جی این اے کے فورسز کا کہنا تھا کہ وہ خون خرابے سے بچنے کے لیے سرت سے پیچھے ہٹے ہیں جہاں پر ان کا قبضہ 2016 سے قائم تھا۔
ایل این اے کے عہدیداروں کے مطابق ان کی جانب سے ابوغرین میں قائم چیک پوسٹوں میں فضائی کارروائیاں کی گئی ہیں جبکہ فوجوں کے درمیان زمینی جھڑپیں بھی جاری ہیں۔
یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:ترک صدر کا لیبیا کی مدد کیلئے اپنی فوج بھیجنے کا اعلان
معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔