• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بھارت: متنازع شہریت قانون کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار صدف جعفر رہا

شائع January 8, 2020
صدف جعفر کو 7 جنوری کو رہا کیا گیا—فوٹو: فیس بک
صدف جعفر کو 7 جنوری کو رہا کیا گیا—فوٹو: فیس بک

بھارتی پولیس نے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کی ترجمان اور سماجی کارکن صدف جعفر کو عدالتی احکامات کے بعد ضمانت پر رہا کردیا۔

صدف جعفر کو ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے گزشتہ ماہ 19 دسمبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنے فیس بک پر متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہرے کی براہ راست کوریج کر رہی تھیں۔

صدف جعفر سمیت پولیس نے دیگر کئی افراد کو بھی لکھنؤ سے گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا تھا جب کہ بھارت کے دیگر شہروں سے بھی 1500 کے قریب افراد کو متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرے کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اترپردیش پولیس نے بعد ازاں صدف جعفر کو عدالت میں پیش کیا تھا اورعدالت نے کچھ دن ہی سماجی رہنما کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی احکامات کے بعد لکھنؤ پولیس نے صدف جعفر کو 7 جنوری کو رہا کردیا جس کے بعد وہ اپنے گھر پہنچیں۔

بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جیل سے رہائی کے بعد صدف جعفر نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے انہیں دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جب کہ انہیں ’پاکستانی‘ ہونے کے طعنے بھی دیے گئے۔

بہیمانہ تشدد کیا گیا، پاکستانی کہا گیا، صدف جعفر—فوٹو: انڈین ایکسپریس
بہیمانہ تشدد کیا گیا، پاکستانی کہا گیا، صدف جعفر—فوٹو: انڈین ایکسپریس

دو بچوں کی والدہ صدف جعفر کے مطابق پولیس نے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے پیٹ پر لاتیں ماریں جب کہ انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہریت قانون کے خلاف جامع مسجد کے باہر مظاہرے، 'دلت رہنما' گرفتار

کانگریس کی ترجمان اور سماجی رہنما کا کہنا تھا کہ پولیس نے جیل میں تشدد کے دوران انہیں ’پاکستانی‘ ہونے کے طعنے دیا اور انہیں ’پاکستانی‘ کہہ کر پکارا گیا۔

صدف جعفر کا کہنا تھا کہ انہیں نہ صرف خواتین پولیس اہلکاروں بلکہ مرد پولیس اہلکاروں نے بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔

اترپردیش میں متنازع شہریت قانون کے خلاف سب سے زیادہ مظاہرے ہو رہے ہیں—فوٹو: رائٹرز
اترپردیش میں متنازع شہریت قانون کے خلاف سب سے زیادہ مظاہرے ہو رہے ہیں—فوٹو: رائٹرز

سماجی رہنما کے مطابق دوران حراست جب ان سے ایک پولیس افسر ملنے آئے تو انہیں امید ہوئی کہ وہ ان کی مدد کریں گے تاہم انہوں نے بھی خواتین اہلکاروں کو ان پر تشدد کرنے کا حکم دیا۔

مسلمان رہنما نے بتایا کہ مسلسلس تشدد کیے جانے کی وجہ سے ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا تو انہوں نے پولیس والوں سے دوائی کا کہا مگر انہیں دوائی نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت قانون کےخلاف پُرتشدد مظاہرے، متعدد افراد ہلاک

انڈین ایکسپریس کے مطابق صدف جعفر کی جانب سے کیے گئے دعووں کو لکھنؤ پولیس نے جھوٹا قرار دیا تاہم اس پر مزید بات نہیں کی۔

خیال رہے کہ صدف جعفر پر پولیس نے اقدام قتل، پولیس کو اپنے فرائض سر انجام دینے سے روکنے سمیت پولیس اہلکاروں کی تذلیل کرنے جیسے الزامات کے تحت مقدمے دائر کیے تھے۔

ان کی گرفتاری پر بولی وڈ شخصیات سمیت دیگر سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے بھی انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ان کے دل سے جیل جانے اور پولیس کے تشدد کا خوف ختم ہوگیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کی مشکور ہیں کہ انہوں نے انہیں جیل بھجوایا کیوں کہ اب ان کے دل سے جیل کا خوف ختم ہوچکا ہے۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 کے آغاز سے مظاہرے شروع ہوئے—فوٹو: اے پی
متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 کے آغاز سے مظاہرے شروع ہوئے—فوٹو: اے پی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024