بھارت: یونیورسٹی حملے پر شدید تنقید، پولیس نے بالآخر تحقیقات کا آغاز کردیا

شائع January 6, 2020
یونیورسٹی پر حملہ ملک بھر میں بھارتی وزیراعظم کے شہریت قانون نافذ کرنے پر احتجاج کے بعد سامنے آیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
یونیورسٹی پر حملہ ملک بھر میں بھارتی وزیراعظم کے شہریت قانون نافذ کرنے پر احتجاج کے بعد سامنے آیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
یونیورسٹی پر حملہ ملک بھر میں بھارتی وزیراعظم کے شہریت قانون نافذ کرنے پر احتجاج کے بعد سامنے آیا تھا — فوٹو: رائٹرز
یونیورسٹی پر حملہ ملک بھر میں بھارتی وزیراعظم کے شہریت قانون نافذ کرنے پر احتجاج کے بعد سامنے آیا تھا — فوٹو: رائٹرز

نئی دہلی پولیس نے نقاب پوش افراد کی جانب سے یونیورسٹی میں گھسنے اور احتجاجی طلبا پر ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے حملے پر شدید تنقید کا سامنا کرنے کے بعد واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

گزشتہ روز یونیورسٹی میں ہونے والا حملہ ملک بھر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے شہریت قانون نافذ کرنے پر احتجاج کے بعد سامنے آیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام دیوندرا آریا کا کہنا تھا کہ 'یونیورسٹی میں ہونے والے تشدد کی وجہ سے پولیس نے کیس کا آغاز کیا اور سوشل میڈیا اور سی سی ٹی وی فوٹیجز کو تحقیقات کا حصہ بنایا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی حملے میں متعدد اساتذہ و طلبہ زخمی

یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے الزام عائد کیا کہ اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے جامعہ میں حملہ کیا جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارتی (بی جے پی) کی نظریاتی جماعت راشٹریہ سیوک سینگھ (آر ایس ایس) کی طلبہ تنظیم ہے جس پر بائیں بازو کی طلبہ یونین نکسل کی جانب سے حملے کا الزام عائد کیا گیا۔

طالب علموں نے حملہ آوروں کی یونیورسٹی کے ہالز میں داخل ہونے کی تصاویر شیئر کیں جن میں ان کا چہرہ ماسک سے چھپایا ہوا تھا جب کہ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور لوہے کی سلاخیں اور چند کے ہاتھوں میں ہتھوڑے بھی تھے اور وہ نعرے بازی کر رہے تھے کہ غداروں کا قتل کرو۔

30 سے زائد زخمیوں کو آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں داخل کیا گیا۔

حکومتی کوششوں کے باوجود مظاہرے جاری ہیں اور پورے بھارت میں یونیورسٹی حملے کے بعد مزید احتجاج کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

اے بی وی پی نے حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے حریف یونین پر حملے کی ذمہ داری عائد کی۔

حکام کو یونیورسٹی میں تشدد پر مداخلت نہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنے پڑا۔

صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی اپوزیشن لیڈر سونیا گاندھی کا کہنا تھا کہ 'بھارت کے نوجوان اور طالب علموں کی آواز دبائی جارہی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: شہریت قانون کے خلاف جامعہ دہلی میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

ان کا کہنا تھا کہ 'مودی کی حکومت کی جانب سے تشدد پر اکسانے کے بعد بھارتی نوجوانوں پر غنڈوں کی جانب سے تشدد کا واقعہ ناقابل قبول ہے'۔

دہلی پولیس کے وکیل راہول مہرا نے وہاں پولیس کی غیر موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'غنڈوں کے یونیورسٹی میں گھسنے، تباہی مچانے، طالب علموں کو زخمی کرنے، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور واپس چلے جانے کی ویڈیوز دیکھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا ہے'۔

ناقدین نے نریندر مودی پر ہندو فرسٹ ایجنڈا لانے پر تنقید کرتے ہوئے جس کی وجہ سے بھارت کی سیکولر جمہوریت کی بنیاد اثر انداز ہورہی ہے۔

شہریت قانون بھارت میں پڑوسی ممالک سے آئے 6 مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کا قانون ہے تاہم اس میں مسلمانوں کا کہیں ذکر نہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ قانون کا مطلب اقلیتوں، افغاستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آئے مسیح، ہندو اور سکھوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024